وائٹ ہاؤس نے کہا ہے غزہ میں حماس کے زیر حراست قیدیوں کے ایک مزید گروپ کو رہا کرنے کے لیے ہونے والی بات چیت تعمیری اور امید افزا ہے، لیکن ابھی بہت کام کرنا باقی ہے۔
سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز اور مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی خصوصی ایلچی بریٹ میک گرک نے گزشتہ چند دنوں کے دوران مذاکرات کے ایک سلسلے میں حصہ لیا جس میں قیدیوں کی رہائی اور اسرائیل اور حماس کے درمیان انسانی بنیادوں پر جنگ بندی پر توجہ مرکوز کی گئی۔
وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان نے امریکی ٹی وی کو بتایا کہ میرے خیال میں مذاکرات کو تعمیری قرار دینا مناسب ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ یرغمالیوں کے بارے میں ایک اور معاہدے کے لیے ایک فریم ورک موجود ہے، تاہم اس کو عملی شکل دینے میں وقت لگ سکتا ہے۔
برنز نے اسرائیلی انٹیلی جنس سروس کے سربراہ، قطری وزیر اعظم اور مصری انٹیلی جنس کے سربراہ سے اتوار کو ملاقات کی۔ بات چیت کو اسرائیل نے تعمیری قرار دیا، لیکن اس بات کا عندیہ دیا کہ ابھی اس میں بڑے خلا ہیں۔
جان کربی نے کہا کہ قطری، مصری اور اسرائیلی حکام کے ساتھ جو بات چیت ہوئی وہ بہت اچھی رہی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے ابھی فنش لائن کو عبور نہیں کیا ہے، لیکن ہم بات چیت، ان کی تجاویز اورنتائج کے حوالے سے مطمئن ہیں جو بہت اہم ہو سکتا ہے۔
دریں اثناء اسرائیلی میڈیا نے کہا ہے کہ جنگی کونسل نے اس پیشکش پر غور کیا، جس میں پہلے مرحلے میں حماس کے زیر حراست 35 قیدیوں کی رہائی کے بدلے غزہ میں 45 روزہ جنگ بندی شامل ہے۔
i24 نیوز ٹی وی نے رپورٹ کیا کہ جنگی کونسل کی طرف سے زیر بحث آنے والی پیشکش میں حماس کے زیر حراست ہر اسرائیلی قیدی کے بدلے 100 سے 250 فلسطینی قیدیوں کی رہائی بھی شامل ہے۔
انہوں نے اسرائیلی چینل 12 کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ معاہدہ مکمل ہونے کی صورت میں رہا کیے جانے والے فلسطینی قیدیوں کی کل تعداد 4000 سے 5000 کے درمیان ہو جائے گی۔ یہ جنگ کے بعد کی تاریخ میں سب سے زیادہ تعداد ہو گی۔