17 ستمبر 1974ء کو 52 سال کی عمر میں وفات پانے والے مایہ گلوکار و موسیقار استاد امانت علی خان کی وفات کو 45 سال گزر چکے ہیں۔ امانت علی خان نے غزل، گیت اور راگوں کی گائیکی میں ایک ایسا مقام حاصل کیا تھا جو ان کے بعد کسی کے حصے میں نہ آسکا۔
استادامانت علی خان معروف گلوکار اسد امانت علی خان کے والد تھے جو کلاسیکل اور غزل گائیکی میں منفرد مقام رکھتے تھے۔ بڑے فتح علی خان کے چھوٹے بھائی امانت علی خان نے اپنے بڑے بھائی سے بڑھ کر شہرت اور عروج حاصل کیا، تاہم انہیں صدرِ پاکستان نے 1969ء میں ان کے بڑے بھائی کے ہمراہ تمغہ برائے حسنِ کارکردگی (پرائڈ آف پرفارمنس) سے نوازا۔
یہ بھی پڑھیں: گلوکار فرحان سعید کی گانا چوری ہونے پر بھارتی گلوکار سلیم مرچنٹ سے ٹوئٹر جنگ
انہوں نے مہدی حسن اور احمد رشدی جیسے گلوکاروں کے دور میں اپنی الگ پہچان بنائی اور سینکڑوں کلاسیکی و سیمی کلاسیکی گیت دئیے جن کی بنیاد پر ان کےمداح آج بھی ان کے گن گاتے ہیں اور ان کے گیتوں پر سر دُھنتے ہیں۔
امانت علی خان موسیقی میں اعلیٰ مقام رکھنے والے گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کی پیدائش بھارتی صوبہ پنجاب کے شہر ہوشیار پور میں علی بخش جرنیلی کے ہاں ہوئی جنہوں نے موسیقی کے پٹیالہ گھرانے کی بنیاد رکھی تھی۔دُنیائے موسیقی میں پٹیالہ گھرانہ آج بھی ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ پٹیالہ گھرانے میں امانت علی خان سے پہلے اور ان کے بعد بھی متعدد نامور گلوکار پیدا ہوئے۔
بھارت میں 1922ء میں پیدا ہونے والے امانت علی خان نے قیامِ پاکستان 1947ء کے بعد اپنے خاندان کے ہمراہ ہجرت کی اور تاوقتِ مرگ پاکستان میں ہی زندگی بسر کی۔ ان کی وفات اپنڈکس کے باعث ہوئی تھی۔
ان کے بیٹے اسد امانت علی خان نے بھی اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے گلوکاری کے فن کو اپنایا اور ساری زندگی اسی سے منسلک رہے۔ 8 اپریل 2007ء کو لندن میں ہارٹ اٹیک کے باعث اسد امانت علی کا انتقال ہوگیا، تاہم دُنیائے موسیقی میں امانت علی خان اور اسد امانت علی کا نام آج بھی زندہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اداکارہ صوفیا مرزا پر منی لانڈرنگ کا الزام، ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے تحقیقات کریں گے