کشمالہ طارق پر لگائے گئے الزامات اور اسلام آباد میں 4 افراد کی جان لینے والا حادثہ

کالمز

zia
بربرا: پیرس کی شہزادی
"A Karachi Journalist's Heartfelt Plea to the Pakistan Army"
کراچی کے صحافی کی عسکری قیادت سے اپیل
zia-2-1
حریدیم کے ہاتھوں اسرائیل کا خاتمہ قریب!
کشمالہ طارق پر لگائے گئے الزامات اور اسلام آباد میں 4 افراد کی جان لینے والا حادثہ
کشمالہ طارق پر لگائے گئے الزامات اور اسلام آباد میں 4 افراد کی جان لینے والا حادثہ

وفاقی محتسب کشمالہ طارق آج کل اخبارات کی شہ سرخیوں اور میڈیا چینل رپورٹس کی زینت بنی ہوئی ہیں کیونکہ حال ہی میں ان پر منی لانڈرنگ کے سنگین الزامات عائد کیے گئے جس کے بعد وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک حادثہ ہوا جس نے 4 افراد کی جان لے لی۔

کشمالہ طارق کوئی عام وفاقی محتسب نہیں ہیں بلکہ ملکی سیاست اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے ایک بڑا نام سمجھی جاتی ہیں۔آئیے کشمالہ طارق کے متعلق مختلف خبروں اور معلومات کا جائزہ لیتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کشمالہ طارق پر لگائے گئے الزامات کس حد تک حقیقت پر مبنی  ہیں۔

محتسب کا اہم عہدہ اور سیاست کا میدان 

فروری 2018ء میں 4 سالہ مدت کیلئے کشمالہ طارق خواتین سے ہراسگی کے مسائل پر وفاقی محتسب مقرر ہوئیں اور تاحال اِس عہدے پر فائز ہیں جبکہ میدانِ سیاست میں بھی کشمالہ طارق کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ 

قبل ازیں سن 2002ء سے لے کر 2013ء تک کشمالہ طارق رکنِ قومی اسمبلی رہیں۔ انہوں نے لندن اسکول آف اکنامکس اینڈ پولیٹیکل سائنس سے قانون کے شعبے میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ہے اور پیشے کے اعتبار سے وکیل بھی رہی ہیں۔

سن 2020ء میں کشمالہ طارق نے وقاص خان سے شادی کی۔ سیاسی میدان میں کشمالہ طارق کی وابستگی پاکستان مسلم لیگ (ق) سے رہی۔ سن 2002ء کے عام انتخابات میں کشمالہ طارق خواتین کیلئے مختص سیٹ پر قومی اسمبلی کی رکن بنیں۔

بطور رکنِ قومی اسمبلی کشمالہ طارق کو خواتین کے حقوق پر قانون سازی کا علمبردار سمجھا جاتا ہے۔ سن 2007ء میں کشمالہ طارق کامن ویلتھ ویمن پارلیمنٹیرینز کمیٹی کی چیئرپرسن منتخب ہوئیں۔

اگلے برس یعنی 2008ء میں کشمالہ طارق ایک بار پھر قومی اسمبلی کی خواتین کیلئے مختص سیٹ پر پنجاب سے منتخب ہوئیں۔ایک خوبرو سیاستدان کی حیثیت سے بھی کشمالہ طارق کو بے حد سراہا گیا۔

دنیا بھر میں کشمالہ طارق کو دولتِ مشترکہ کی خواتین پارلیمنٹیرینز کی چیئرپرسن منتخب ہونے پر بہت پذیرائی حاصل ہوئی جبکہ کشمالہ طارق حدود آرڈیننس کے حوالے سے خواتین کے حقوق کیلئے جدوجہد میں مصروف رہیں۔

قومی احتساب بیورو، خواجہ آصف اور کشمالہ طارق  

بعض پاکستانی میڈیا رپورٹس کے مطابق قومی احتساب بیورو (نیب) نے گزشتہ ماہ 12 جنوری کے روز کشمالہ طارق کو کی گئی ادائیگیوں کے شواہد حاصل کیے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ن لیگی رہنما خواجہ آصف کشمالہ طارق کے اکاؤنٹ میں 12 کروڑ روپے منتقل کرچکے ہیں۔

میڈیا نے باوثوق ذرائع کے ذریعے یہ خبر شائع کی کہ کشمالہ طارق کو خواجہ آصف کے فرنٹ مین نے ادائیگیاں کیں اور 2 بار رقم ان کے اکاؤنٹ میں جمع ہوئی۔ جنوری 2015ء میں 7 کروڑ جمع ہوئے اور کشمالہ طارق نے خود مئی 2015ء میں 5 بار 1 کروڑ روپے کی رقم نکلوائی۔

ستمبر 2015ء میں کشمالہ طارق کے اکاؤنٹ میں آن لائن 5 کروڑ کی رقم جمع ہوئی، پھر مارچ 2016ء میں کشمالہ طارق نے 3 کروڑ روپے نکلوا لیے۔ اگست 2016ء میں بھی انہوں نے 4 کروڑ روپے نکلوائے تھے۔

نیب کی طرف سے یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ پنجاب انٹرپرائزز کو 2 بار بڑی رقوم منتقل ہوئیں اور پنجاب انٹرپرائزز وہ کمپنی ہے جو خواجہ آصف کے فرنٹ مین جاوید وڑائچ کے نام رجسٹرڈ تھی۔ نیب نے پنجاب انٹرپرائزز سے کشمالہ طارق کے تعلق پر تحقیقات کا آغاز کردیا۔ ن لیگ دور میں کشمالہ طارق کو وفاق میں اہم عہدہ وفاقی محتسب دیا گیا اور موجودہ پی ٹی آئی حکومت میں بھی  وفاقی محتسب کشمالہ طارق ہی ہیں۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تاحال نیب نے کشمالہ طارق کو پوچھ گچھ یا تفتیش کیلئے طلب نہیں کیا جبکہ خواجہ آصف منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثہ جات کے الزامات پر نیب کی تحویل میں ہیں۔ 

اکاؤنٹ میں رقم کی منتقلی پر کابینہ کا نوٹس

گزشتہ ماہ 25 جنوری کے روز وفاقی کابینہ نے محتسب برائے انسدادِ ہراسانی کشمالہ طارق کے اکاؤنٹ میں کروڑؤں روپے منتقلی کا نوٹ لیتے ہوئے معاملے کی تحقیق کیلئے متعلقہ حکام کو ہدایت کی۔

معاملہ وزارتِ قانون کو بھجوایا گیا۔ وفاقی کابینہ کے تحفظات یہ تھے کہ کشمالہ طارق وفاقی حکومت کے اہم عہدے پر فائز ہیں، کہیں انہوں نے ضابطۂ اخلاق کی کوئی خلاف ورزی تو نہیں کی؟ کابینہ نے ہدایت کی کہ اگر کوئی خلاف ورزی ہوئی ہے تو ایکشن بھی لیا جانا چاہئے۔ 

افسوسناک حادثہ اور میڈیا رپورٹنگ

شہرِ اقتدار میں یکم اور 2 فروری کی درمیانی شب سری نگر ہائی وے پر تیز رفتار گاڑی نے 6 افراد کو کچلا جس کے نتیجے میں 4 جاں بحق جبکہ 2 زخمی ہوئے اور پھر کارسوار افراد بھی جائے حادثہ سے فرار ہو گئے۔

مقدمے میں کشمالہ طارق کے صاحبزادے اذلان کو نامزد کیا گیا تھا جس کی عبوری ضمانت 50 ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض  گزشتہ روز ایڈیشنل سیشن جج نے 16 فروری تک منظور کر لی۔

عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ گاڑی ایک نوجوان چلا رہا تھا جو بیسٹ ویسٹرن کے مالک کی ہے جو کشمالہ طارق کے شوہر ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق کشمالہ طارق کا بیٹا اذلان خان بھی حادثے کے وقت گاڑی میں موجود تھا۔

میڈیا رپورٹنگ میں یہ دعویٰ بھی سامنے آیا کہ حادثے کا ملبہ ہوٹل مالک کے ڈرائیور پر ڈالنے  کی کوشش کی جارہی ہے۔ پولیس کو بتایا گیا کہ گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر حادثے کے وقت ڈرائیور وقاص موجود تھا۔ جاں بحق ہونے والے 4 دوست مانسہرہ سے اینٹی نارکوٹکس فورس میں بھرتی ہونے کیلئے ٹیسٹ دینے نکلے تھے۔

بعدازاں وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی واقعے کا نوٹس لے لیا اور حادثے کی فوری رپورٹ طلب کی۔ عمران خان نے کہا کہ وزراء سیکیورٹی کے نام پر سرکاری وسائل کو غیر ضروری طور پر استعمال نہ کریں، جیسا کہ حادثے کی میڈیا رپورٹنگ میں کشمالہ طارق پر الزام تھا کہ ان کی گاڑی پروٹوکول قافلے کے ہمراہ سڑک سے گزر رہی تھی۔ 

بیٹے اور شوہر پر الزامات کی تردید 

ایک ویڈیو بیان میں کشمالہ طارق نے کہا کہ میرا بیٹا گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھا تھا۔ میں اور میرے شوہر ایک گاڑی میں تھے۔ حادثے کا ذمہ دار زبردستی میرے بیٹے کو قرار دیا جارہا ہے۔ گاڑی ڈرائیور کنٹرول نہیں کر پایا اور یہ ایک خوفناک حادثہ تھا جو رات کے وقت پیش آیا۔

انہوں نے کہا کہ جو بچے وفات پا گئے، ان کیلئے بہت پریشان ہوں، میرا بیٹا اور شوہر تھانے بھی گئے، کسی کے بچے کو ناحق نہ لپیٹا جائے۔ انصاف ضرور ہوگا۔ میڈیا نے جو الزام لگایا کہ ہم حادثے کے بعد فرار ہو گئے تھے، یہ غلط ہے۔ ہم نے تو ایمبولینس بھی خود بلائی۔

الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کشمالہ طارق نے کہا کہ کل لاہور سے ہم شام 7 بجے کے قریب نکلے تھے۔ ساڑھے 10 بجے کے قریب ہم ٹول پلازہ کراس کرچکے تھے۔ کل 2 گاڑیاں تھیں۔ کشمیر ہائی وے پر اچانک یہ حادثہ پیش آگیا۔ ہم خود بچوں والے ہیں۔ انسانی جانوں کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا۔ حادثے کی سی سی ٹی وی ویڈیو دیکھئے، اگر ہم قصور وار ہوں تو معافی مانگیں گے۔ میڈیا مس رپورٹنگ نہ کرے بلکہ جو سچ ہو، وہ دکھائے۔ 

حقیقت کیا ہے؟ 

غور کیا جائے تو میڈیا کی مس رپورٹنگ کوئی زیادہ حیرت کی بات بھی نہیں ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ کشمالہ طارق کے بیٹے کو بچانے کیلئے ڈرائیور کو قربانی کا بکرا بنانے کی کوشش کی گئی، تاہم سی سی ٹی وی فوٹیج سے ہر بات واضح ہوسکتی ہے۔

بعض اوقات رپورٹرز کی رپورٹنگ بھی درست ہوتی ہے لیکن خبر بنانے کیلئے کسی بھی واقعے کا ایک ایسا رخ دیکھنا کافی ہوتا ہے جس میں عوام دلچسپی لیں تاہم کسی بھی جرم کی حقیقت جاننے کیلئے اس کی تمام تر پہلوؤں سے تفتیش ضروری ہوتی ہے۔تفتیش کے نتائج کا دارومدار درست تحقیقات پر ہے۔ 

Related Posts