اسلام آباد : فاصلاتی نظام تعلیم کے حوالے سے ملک بھر میں منفرد مقام رکھنے والی علامہ اقبال یونیورسٹی دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہونے سے خاطر خواہ نتائج دینے سے محروم ہے ۔
یونیورسٹی کے مختلف کورسز نصاب کے حوالے سے غیر معیاری اور ناقص پلاننگ سے لاکھوں طلبہ و طالبات کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے، یونیورسٹی کے بیشتر کورسز کے لئے نصابی کتب کا پاکستان کی جاب مارکیٹ سےغیر ہم آہنگ ہونا اور انٹر پرینیور شپ کے رحجان پر کم تو جہ کے طور پر سامنے آیا ہے ۔
یونیورسٹی انتظامیہ سالانہ اربوں روپے فیسوں کی مد میں وصول کرتی ہے ، یونیورسٹی کے کورسز کی کلاسز بھی مرحلہ وار ہوتی رہتی ہیں اور اسائنمنٹ بھی طلب کی جاتی ہیں ۔
حیران کن طور پر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی اسائنمنٹس کئی شہروں میں کھلے عام فروخت ہوتی ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے اگر اسی طرح تیار شدہ اسائنمنٹ جس کی بنیاد پر ہی نمبرز لگا دیے جاتے ہیں تو طلباء میں تخلیقی صلاحیتیں کیسے پیدا ہو سکتی ہیں۔
دوسری جانب نصابی کتب کی سلیکشن اور تیاری کے مراحل سے گزرنے کی بجائے یے بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں رائج کتب کی مدد لی جاتی ہے کیا پاکستانی طلبا و طالبات کی استعداد کار بیرون ملک کے مصنفین کی کاپی شدہ اورمتروک شدہ سے مطابقت رکھتی ہے۔
مزید پڑھیں:کے ایم ڈی سی کو یونیورسٹی کا درجہ دینے میں تکنیکی رکاوٹیں پیدا کرنے کا انکشاف