پاکستان میں سینیٹ الیکشن اور سینیٹر ز کا طریقہ انتخاب، تفصیلی جائزہ

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Senate polls

3مارچ کو پاکستان میں سینیٹ کا الیکشن منعقد ہورہا ہے، اس سال سینیٹ سے 52سینیٹرز ریٹائر ہوجائیں گے جس کی وجہ سے جنرل نشستوں پر 33، ٹیکنو کریٹ کی نشست پر 8،خواتین کی 9 اورغیر مسلم کی دو نشستیں خالی ہو رہی ہیں تاہم اس بار سینیٹ کی 48 نشستوں پر الیکشن ہوگا، فاٹا کی چار نشستوں پر انتخابات نہیں ہوں گے جس کے باعث اس بار سینیٹ کی نشستیں 104 سے کم ہو کر 100 رہ جائیں گی۔

سینیٹ کے قیام کی وجوہات
1971 میں جب پاکستان دولخت ہواتو اس کی وجوہات میں ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ حکومتیں چھوٹے صوبوں کو توجہ نہیں دیتی تھیں۔ جب ملک دوٹکڑے ہواتو 1971 کے بعد ایوان بالا یعنی سینیٹ بنایا گیا تاکہ تمام چھوٹے صوبوں کو بڑے صوبوں کی طرح نمائندگی مل جائے کیونکہ قومی اسمبلی میں تو ہر صوبے سے ارکان اکثریت کے بنیاد پہ منتخب ہوتے ہیں یعنی جس صوبے کی زیادہ آبادی ہوتی ہے وہی سے زیادہ نشستیں منتخب ہوتی ہیں لیکن سینیٹ میں تمام صوبوں سے ارکان برابر تعداد میں منتخب ہوتے ہیں۔

سینیٹ کے ممبران کا انتخاب خفیہ رائے شماری سے ہوتاہے ، چاروں صوبوں سے آنے والے سینیٹرز اپنے اپنے صوبائی اسمبلی کے ارکان کے کوٹے سے منتخب ہوتے ہیں ،اسی طرح اسلام آبادکے سینیٹرز کا چناؤوقومی اسمبلی کے تمام ارکان ملکر کرتے ہیں ۔

سینیٹ کی اہمیت
سینیٹ پاکستان کی پارلیمان کا ایوان بالا ہےاور اس ایوان کے قیام کی بنیادی وجہ تمام وفاقی اکائیوں اور طاقتوں کو ایک جگہ پر نمائندگی دینا ہے۔ ایوان زیریں یا قومی اسمبلی (پارلیمنٹ) میں موجود ہر صوبے کی طرف سے برابر تعداد میں ہر ایک کی نمائندگی کا موقع اس ایوان بالا میں دیا جاتا ہے تاہم سینیٹ الیکشن میں عوام براہ راست ووٹ نہیں دیتے بلکہ عوام کے منتخب کردہ ارکان اسمبلی سینیٹرز کا انتخاب کرتے ہیں۔

اس ایوان کے قیام کی بنیادی وجہ تمام وفاقی اکائیوں اور طاقتوں کو ایک جگہ پر نمائندگی دینا ہے۔ ایوان زیریں یا قومی اسمبلی میں موجود ہر صوبے کی طرف سے برابر تعداد میں ہر ایک کی نمائندگی کا موقع اس ایوان بالا میں دیا جاتا ہے۔

ارکان کی میعاد
اور ہر تین سال بعد سینٹ کے آدھے اراکین 6 سالہ مدت پوری کرنے کے بعد ریٹائر ہو جاتے ہیں۔ان کی جگہ قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیاں اپنے اپنے صوبوں سے نئے سینیٹرز کا چناؤ کرکے انہیں سینٹ نمائندگی کے لئے بھیجتی ہیں۔ قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیاں سینٹ کے الیکٹرول کالج ہیں ان اسمبلیوں کے اراکین سینٹ انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے اہل ہوتے ہیں۔

ووٹ کا طریقہ کار
پنجاب اسمبلی کے 371،سندھ 165، خیبر پختونخوا کے 114 اور بلوچستان کے 65 ارکان برابر سینیٹر کیسے منتخب کرسکتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ سنگل ٹرانسفرایبل ووٹ (واحد قابل انتقال ووٹ) ایک انتخابی نظام ہے۔

اس نظام کو مختلف ممالک میں مختلف نام دیے گئے ہیں مثلاً آسٹریلیا میں ہیرکلارک سسٹم اور امریکا میں چوائس ووٹنگ۔ اس وقت یہ سسٹم آئرلینڈ اور مالٹا میں رائج ہے۔ آسٹریلیا میں اس کے ذریعے فیڈرل سینیٹ منتخب کی جاتی ہے۔یہ طریقہ کار متناسب نمائندگی ہی کا حصہ ہوتا ہے۔ اس میں تمام کے تمام ووٹ امیدواروں کو ملتے ہیں، جماعتوں کو نہیں۔

اس میں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اگر کوئی ووٹر یعنی رُکن صوبائی اسمبلی 1 سے 20 تک ترجیحی ہندسہ درج کرتے ہوئے کوئی ایک ہندسہ بھول جائے یعنی 9 کے بعد 10 کی ترجیح لگانے کے بجائے کسی امیدوار کے سامنے 11 کی ترجیح لگادے تو اس کے 9 ووٹ گنے جائیں گے جبکہ 9 کے بعد 20 تک کے سارے ترجیحی ووٹ کینسل یا منسوخ شمار ہوں گے۔

اسمبلیوں کی صورتحال

اس فارمولے کے تحت اعداد و شمار کا جائزہ لینے سے پہلے ایک بات واضح کرتے چلیں کہ پنجاب اسمبلی میں سینیٹ کا الیکشن بلامقابلہ ہوچکا ہے اور یہاں 11 نشستوں پر مدمقابل امیدواروں کی جانب سے کاغذات نامزدگی واپس لینے کی وجہ سے حتمی امیدواروں کامیاب قرار پائے ہیں جن کا نوٹیفکیشن 3 مارچ کو جاری کیا جائیگا۔

سندھ اسمبلی
اب ہم اگر سندھ اسمبلی کی بات کریں تو یہاں 168ووٹ ہیں جبکہ سینیٹ کی 11 نشستوں ،7 جنرل ،2 ٹیکنو کریٹ اور دو خواتین کی نشستوں پر الیکشن کا انعقاد ہوگا۔ اب اگر یہاں ووٹ کا تناسب دیکھا جائے تو اگر سات جنرل نشستوں کی بات کی جائے تو 21اعشاریہ 1 ووٹ سے ایک سینیٹر منتخب ہوگایاں یوں کہہ لیں کہ ایک سیٹ پر کامیابی کیلئے امیدوار کو21 اعشاریہ ایک پوائنٹس درکار ہونگے جبکہ ٹیکنوکریٹ کی 2اور

خواتین کی 2 نشستوں پر 56اعشاریہ ایک پوائنٹس یا56اعشاریہ ایک ووٹ درکار ہونگے ۔ یہاں ایک بات یاد رکھنے کی ہے وہ یہ کہ ایک ووٹ سو پوائنٹس کا ہوتا ہے۔اب ہم واپس ترجیحی ووٹ پر آئیں تو آپ کو سمجھنے میں آسانی ہوگی ،یعنی ایک سیٹ پر 20 امید وار ہیں اورووٹر پرچی پر تمام ناموں پر نمبر درج کرتا ہے تو اس میں جس امیدوار کے سب سے زیارہ پوائنٹس ہونگے وہی کامیاب قرار پائے گا۔

خیبر پختوخوا اسمبلی
خیبر پختوخوا اسمبلی میں سینیٹ میںکی نشستوں کی بات کی جائے تو سینیٹ کی 12 نشستوں 7 جنرل ،2 ٹیکنو کریٹ ، دو خواتین اور ایک اقلیتی نشست پر الیکشن کا انعقادہوگا،خیبر پختونخوا میں 145 ارکان اپنا حق رائے دہی استعمال کرینگے ۔145 کو 8سے تقسیم کیا جائے تو حاصل آئیگا18 اعشاریہ ایک اور یہاں18 اعشاریہ دو پوائنٹس لینے والا فاتح قرار پائے گا۔

اسی طرح ٹیکنو کریٹ کیلئے 145 کو 3 پر تقسیم کریں تو حاصل آئیگا 48اعشاریہ 3 اور 48 اعشاریہ 4 پوائنٹس لینے والا جیت جائیگا۔اقلیت کی ایک نشست کو دو سے تقسیم کریں تو 72 اعشاریہ پانچ نتیجہ آئیگا اور 72 اعشاریہ 6 پوائنٹس لینے والے امیدوار کو کامیاب قرار دیا جائیگا۔

بلوچستان اسمبلی
بلوچستان اسمبلی میں 65 ارکان سینیٹ الیکشن میں اپنا ووٹ کاسٹ کرینگے، یہاں بھی سینیٹ کی 12 نشستوں 7 جنرل ،2 ٹیکنو کریٹ،دو خواتین اور ایک اقلیتی نشست پر الیکشن کا انعقادہوگا۔ اگر یہاں 65 ووٹس کو 7 پر تقسیم کیا جائے تو9 اعشاریہ 2آٹھ کافگر بنتا ہے اور یہاں 9 اعشاریہ 3 پوائنٹس لینے والے امیدوار کو فاتح قراردیا جائیگا۔

اسلام آباد
اسلام آباد میں ایک جنرل نشست اورخاتون کی نشست پر انتخاب ہوگا اور یہاں 342کے ارکان کے ایوان میں ایک نشست کم ہونے کی وجہ سے یہاں 341 ووٹس ہیں اور ان کو دو سے تقسیم کیا جائے تو 170اعشاریہ پانچ اور جو امیدوار 170 اعشاریہ 6 پوائنٹس حاصل کرلیتا ہے تو وہ کامیاب قرار پائے گا اور خاتون کی نشست کیلئے بھی یہی فارمولا لاگو ہوگا۔

Related Posts