پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمان آج عید الفطر منا رہے ہیں جس کے دوران خوشی سے بھرپور رنگا رنگ تقاریب کا اہتمام جاری ہے۔ دیگر صوبائی حکومتوں کی طرح سندھ حکومت نے بھی لاک ڈاؤن میں نرمی کی جس کے بعد پاکستانی قوم کیلئے نمازِ عید کی ادائیگی آسان ہوگئی۔
یہ ایک الگ بات، کہ حکومت نے نمازِ عید کی ادائیگی کے لیے بھی ایس او پیز (اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پراسیجر) کی شرط رکھی یعنی نماز کی ادائیگی کے دوران نمازی ایک دوسرے سے ایک میٹر یعنی 6 یا ساڑھے 6 فٹ کا فاصلہ رکھیں اور ماسک پہنا جائے وغیرہ وغیرہ، تاہم یہ باتیں پوری نہ ہوسکیں۔
اس سے قطعِ نظر کہ کراچی سمیت ملک کے کن کن شہروں میں ایس او پیز کی دھجیاں کس کس طرح اڑائی گئیں اور نمازی حضرات کورونا وائرس کی پروا نہ کرتے ہوئے باجماعت نماز کی ادائیگی کے دوران باہم کس قدر قریب رہے، آج ہمارا موضوع عید الفطر کی اہمیت اور افادیت ہے۔
عیدالفطر بطور اسلامی تہوار
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ عید الفطر برصغیر یا عرب ثقافت کا بنایا ہوا تہوار نہیں بلکہ اس کی بنیاد سراسر دینی اور اسلامی ہے۔ قرآنِ پاک کے احکامات کے تحت شریعتِ مطہرہ مسلمانوں کو حکم دیتی ہے کہ وہ سال کا ایک مہینہ یعنی رمضان المبارک روزوں کیلئے مخصوص کریں اور اس کے اختتام پر شوال کی پہلی تاریخ کو عید کی خوشی منائیں۔
مسلمانوں پر لازم ہے کہ رمضان المبارک کے پورے مہینے میں روزے رکھیں، لیکن عید کے روز کسی شخص کو روزہ رکھنے کی اجازت نہیں بلکہ عید الفطر کے روز میٹھی چیز کھانا سنت ہے۔بعض اسلامی روایات میں رمضان المبارک کو دینی محنت و مشقت کے مہینے سے تشبیہ دی گئی ہے جبکہ عید الفطر کا ایک دن اس کا دنیاوی اجر ہے۔
اس روز نمازِ عید ادا کی جاتی ہے جو دیگر نمازوں سے ادائیگی اور اہمیت دونوں کے اعتبار سے الگ ہے۔ نمازِ عید کی ادائیگی کے دوران 6 زائد تکبیروں کا اہتمام اسے دیگر نمازوں سے الگ کرتا ہے۔ لفظی اعتبار سے عربی زبان کے لفظ عید کے معنی خوشی یا جشن کے ہیں اور فطر کا مطلب روزہ ختم کرنے کے ہیں۔
ہم اس سے یہ بھی مراد لے سکتے ہیں کہ مسلمان رمضان المبارک کے اختتام پر جو خوشی یا جشن مناتے ہیں، اسے عیدالفطر کا نام دیا جاتا ہے۔ یہی وہ دن ہے جب مسلمان روزے داروں کو رمضان المبارک کے دوران رکھے گئے روزوں کا ثواب عطا کیا جاتا ہے۔
عید کے روز پر ثقافتی چھاپ
دنیا کے مختلف ممالک میں پھیلی ہوئی مسلم امت عید کا تہوار تقریباً ایک ہی طریقے سے مناتی ہے تاہم مختلف ثقافتی تشخص رکھنے والے ممالک میں کچھ روایات ایک دوسرے سے مختلف بھی ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان میں عید کے روز عیدی کا تصور پایا جاتا ہے جو اسلام سے ثابت نہیں ہے۔
عیدا لفطر کے موقعے پر بچوں کو جو خصوصی جیب خرچ دیا جاتا ہے، اسے عیدی کہتے ہیں، بے شک اسلام اس سے منع نہیں کرتا، لیکن اسے عید الفطر کے تہوار کا لازمی حصہ سمجھنا بھی درست نہیں ہے۔ اسلام کے نزدیک عید ایک خوشی کا موقع ہے اور اگر آپ اپنی خوشی سے بچوں کو عیدی دیں تو اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں۔
ثقافتی چھاپ کی دوسری مثال یہ ہے کہ ہر سال جب عید کی نماز ختم ہوتی ہے تو نمازی ایک دوسرے سے گلے ملتے اور مصافحہ کرتے ہیں اور اسے اسلامی تہذیب کا ایک حصہ سمجھا جاتا ہے ، تاہم شریعتِ مطہرہ سے یہ بات بھی بطور حکم ثابت نہیں ہے۔عید کے موقعے پر لوگ اگر خوشی کے اظہار کے لیے گلے ملیں یا مصافحہ کریں تو اس میں ہرج بھی نہیں۔
اسلامی تہوار کے آداب
عیدا لفطر کے روز نماز کی ادائیگی سے قبل غسل کرنا اور کھجور یا کوئی میٹھی چیز کھانا سنت ہے۔لوگ نئے اور صاف ستھرے کپڑے پہنتے اور عطر لگا کر مساجد یا عید گاہوں میں اجتماعی طور پر نماز ادا کرتے ہیں۔
نمازِ عید کی ادائیگی کیلئے ایک راستے سے جانا اور دوسرے سے واپس آنا، تکبیر کہنا (اللہ اکبر، اللہ اکبر، لا الٰہ الا اللہ واللہ اکبر، اللہ اکبر، و للہ الحمد) کہنا سنت ہے۔ مسلمان جب آپس میں عید کے روز ملتے ہیں تو ایک دوسرے کو عید کی مبارکباد دیتے ہیں۔
صدقۂ فطر کی ادائیگی
صدقۂ فطرکو اس کے نام کی مناسبت سے عید الفطر سے منسوب کیا جاتا ہے جو ایک حد تک درست بھی ہے، تاہم اس صدقے کی ادائیگی نمازِ عید سے قبل ضروری قرار دی گئی ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو یہ عام صدقہ شمار ہوتا ہے جس کی وہ حیثیت نہیں جو صدقۂ فطر کی ہوتی ہے۔
آخری روزہ افطار کرنے کے بعد سے ہی صدقۂ فطر کی ادائیگی کا شرعی وقت شروع ہوجاتا ہے جو نمازِ عید سے قبل تک جاری رہتا ہے۔ صدقۂ فطر صاحبِ نصاب، آزاد اور بالغ مسلمانوں پر واجب قرار دیا گیا ہے جس کی مقدار 2 کلو گندم، ساڑھے 3 کلو جو ، کشمش یا کھجور ہے جس کی استطاعت ہو۔
عموماً صدقۂ فطر کیلئے 2 کلو گندم یا ساڑھے 3 کلو جو کا مقامی بھاؤ معلوم کرکے رقم ادا کی جاتی ہے، تاہم اسلامی اصول کے تحت زیرِ استعمال گندم یا جو مقررہ وزن کے مطابق دے دی جائے تو اس میں بھی کوئی قباحت نہیں۔
رواں سال عیدا لفطر کی خصوصی حیثیت
ہر سال عید الفطر ہمیں خوشیاں دے کر جاتی ہے اور رواں سال بھی عید الفطر کا تہوار ہمارے لیے خوشیوں کی سوغات لایا ہے، تاہم عید الفطر سے قبل جو مشکلات درپیش رہیں، انہیں عید کے روز مکمل طور پر بھول جانا دانشمندی نہیں ہوگی بلکہ ان مشکلات کو چیلنج سمجھتے ہوئے ان پر قابو پانا ہمارا مقصد ہونا چاہئے۔
مثال کے طور پر رواں سال کورونا وائرس کی وباء نے پاکستان کے ہزاروں افراد متاثر کیا اور سینکڑوں افراد وائرس کے باعث جاں بحق ہوئے۔ وائرس کے باعث لاک ڈاؤن نے ملک بھر میں بے شمار افراد کو بے روزگار کردیا جو اب مالی امداد کے منتظر ہیں۔
اس کے علاوہ جمعۃ الوداع کے روز کراچی میں قومی ائیر لائن کا طیارہ گر کر تباہ ہوگیا جس پر سوار تقریباً تمام مسافر خالقِ حقیقی سے جا ملے جبکہ 2 افراد معجزانہ طور پر بچ گئے۔ عید الفطر کی خوشیوں میں ہمیں یہ حادثہ بھولنے کی بجائے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے کہ ایسی مشکلات سے نکلنے میں ہماری مدد فرمائے اور آنے والے وقت کیلئے خود کو تیار کرنا چاہئے۔