علی ظفر، میشا شفیع اور جنسی ہراسانی کیس، کیا اپنے حق کیلئے آواز بلند کرنا جرم ہے؟

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

علی ظفر، میشا شفیع اور جنسی ہراسانی کیس، کیا اپنے حق کیلئے آواز بلند کرنا جرم ہے؟
علی ظفر، میشا شفیع اور جنسی ہراسانی کیس، کیا اپنے حق کیلئے آواز بلند کرنا جرم ہے؟

لاہور میں گزشتہ روز گلوکارہ میشا شفیع کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کرنے والے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر آصف اقبال کو معطل کردیا گیا جس کی کوئی وجہ بھی نہیں بتائی گئی۔

اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایف آئی اے آصف اقبال نے 2 سال تک مسلسل تفتیش کی اور 9 افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا۔ بعض ذرائع کے مطابق آصف اقبال نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ایک پوسٹ کی جس کے باعث انہیں معطل کردیا گیا۔

اصل معاملہ میشا شفیع کے علی ظفر کے خلاف جنسی ہراسانی کیس کا ہے جس نے پاکستان کی شوبز انڈسٹری میں ایک طوفان کھڑا کردیا۔ آئیے میشا شفیع کیس کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا اپنے حق کیلئے آواز بلند کرنا آئینِ پاکستان کے تحت کوئی جرم ہے؟

جنسی ہراسانی کیس

رواں ہفتے جمعرات کے روز لاہور کی سیشن کورٹ نے علی ظفر کو بدنام کرنے کی کوشش پر پاکستانی اداکارہ عفت عمر کی عبوری ضمانت منظور کی۔ عفت عمر اور میشا شفیع سمیت 9 افراد کے خلاف ایف آئی آر منگل کے روز درج کی گئی تھی۔

پاکستانی فلم انڈسٹری کے معروف اداکار اور گلوکار علی ظفر نے 2 سال قبل نومبر میں الزام لگیا کہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ان کے خلاف ہتکِ عزت پر مبنی مواد پوسٹ کیا جارہا ہے۔ انہوں نے ایف آئی اے کو باضابطہ ثبوتوں کے ساتھ شکایت درج کروائی۔

گلوکارہ میشا شفیع نے علی ظفر پر اپریل 2018ء میں جنسی ہراسانی کا الزام لگایا۔ علی ظفر کا کہنا ہے کہ الزام سے کئی ہفتے پہلے ہی متعدد جعلی اکاؤنٹس ان کے خلاف متحرک ہو گئے تھے۔

پنجاب کے صوبائی محتسب اور گورنر پنجاب پہلے ہی میشا شفیع کے خلاف فیصلہ صادر کرچکے تھے اور گزشتہ برس اکتوبر کے دوران لاہور ہائی کورٹ نے بھی میشا شفیع کی اپیل مسترد کردی۔

اپیل کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ علی ظفر اور میشا شفیع میں کوئی مالک اور ملازم کا رشتہ نہیں جس کی بنیاد پر یہ اپیل فائل کی گئی ہے۔ مالک اور ملازم میں اگر کوئی جنسی ہراسانی کا معاملہ ہو، تبھی متعلقہ قانون لاگو کیا جاسکتا ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ ایف آئی اے کو علی ظفر کے جمع کرائے گئے ثبوتوں کی جانچ پڑتال میں 2 سال لگ گئے۔ میشا شفیع کے خلاف ایف آئی آر رواں برس ہی درج کی گئی ہے۔

قبل ازیں میشا شفیع 3 دسمبر 2019ء کو ایف آئی اے میں پیش ہونے کے باوجود اپنے الزامات ثابت نہ کرسکیں۔ علی ظفر کا کہنا تھا کہ مجھ پر جان بوجھ کر بے بنیاد الزامات لگائے گئے۔

خود پر الزامات کو سازش قرار دیتے ہوئے علی ظفر نے یہ بھی کہا کہ اِس معاملے میں گلوکارہ میشا شفیع کے ساتھ ساتھ ان کی دوست اور وکیل بھی شامل ہیں۔ان پر الزامات ملٹی نیشنل کمپنی کے کنٹریکٹ سے نکلوانے کیلئے لگائے گئے۔

می ٹو مہم اور جنسی ہراسانی 

امریکا سے شروع ہونے والی می ٹو مہم میں علی ظفر اور میشا شفیع کا جنسی ہراسانی کیس کم از کم پاکستان کیلئے ایک منفرد نوعیت کا کیس ثابت ہوا ہے جہاں معاشرے پر صرف مردوں کی اجارہ داری ہی جائز سمجھی جاتی ہے۔

جنسی ہراسانی پاکستان سمیت دُنیا بھر کی خواتین کیلئے ایک اہم مسئلہ ہے جس کے بے شمار واقعات پاکستان میں تو دور کی بات، دُنیا بھر میں رپورٹ نہیں کیے جاتے۔

بہرحال علی ظفر اور میشا شفیع کے کیس میں ایک عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ میشا شفیع نے جنسی ہراسانی کے الزام کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور علی ظفر کو قربانی کا بکرا بنایا گیا۔

کیس میں بےشمار جعلی اکاؤنٹس کا انکشاف کیا گیا جن میں سب سے نمایاں ایک نیہا سہگل 1 کا اکاؤنٹ تھا۔ میشا شفیع اور والدہ صبا حمید، میشا کی وکیل نگہت داد اور دیگر قریبی افراد اِ اکاؤنٹ کے فالوورز میں شامل تھے۔

جعلی اکاؤنٹس کی نشاندہی پر سماجی رابطے کی بڑی بڑی ویب سائٹس پر علی ظفر اور اہلِ خانہ کی کردار کشی کرنے والے کئی اکاؤنٹس بند کروا دئیے گئے ہیں۔ عام طور پر می ٹو مہم کا تاثر بھی کم از کم پاکستانی معاشرے میں یہی ہے کہ مہم میں جنسی ہراسانی کا الزام عورت کا سب سے طاقتور ہتھیار ہوتا ہے جس سے وہ مردوں کو بدنام کرتی ہے۔

 ہتکِ عزت کے دعوے اور بیانات

جو بات جنسی ہراسانی کیس سے شروع ہوئی تھی وہ ایک دوسرے کے خلاف ہتکِ عزت کے دعووں پر ہی ختم نہیں ہوئی بلکہ ایک دوسرے کے خلاف علی ظفر اور میشا شفیع نے بیانات بھی دئیے اور سوشل میڈیا پر پیغامات بھی جاری کیے۔

ایک طرف تو علی ظفر نے میشا شفیع پر 1 ارب روپے ہرجانے کا ہتکِ عزت کا کیس کردیا جو ان کے جنسی ہراسانی کیس کا ردِ عمل کہا جاسکتا ہے۔

گزشتہ ماہ میشا شفیع نے علی ظفر پر 2 ارب روپے ہرجانے کا جوابی دعویٰ دائر کردیا جس کی سماعت ایڈیشنل سیشن جج امجد علی شاہ نے کی۔ میشا شفیع نے کہا کہ علی ظفر نے مجھ پر جو الزامات لگائے وہ بالکل جھوٹے اور بے بنیاد ہیں۔

میڈیا سے گفتگو کے دوران علی ظفر یہ کہہ چکے تھے کہ میشا شفیع نے کینیڈا کی شہریت کیلئے مجھ پر جنسی ہراسانی کا الزام لگایا جو جھوٹا ہے۔ میں ایک شریف شہری ہوں اور میشا شفیع ایک جھوٹی خاتون ہے۔ 

مجموعی تاثر اور حقوقِ نسواں کی جنگ

اب تک کیسز، دعووں اور بیانات سے گلوکار علی ظفر کا میشا شفیع پر پلڑا بھاری نظر آتا ہے جس سے حقوقِ نسواں کی جنگ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔

ایک گلوکارہ کی حیثیت سے میشا شفیع کا علی ظفر پر الزام درست ہو یا غلط، می ٹو مہم کی چھتر چھایہ تلے حقوق سے محروم پاکستانی خواتین کو ایک آواز مل گئی تھی۔

یہ آواز می ٹو مہم کے بے بنیاد ثابت ہونے کے باعث بری طرح متاثر ہوگی اور وہ خواتین بھی اپنے حق کیلئے آواز اٹھاتے ہوئے سوچنے پر مجبور ہوں گی جو می ٹو مہم کے ذریعے کچھ تقویت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تھیں۔

حقیقت کچھ بھی ہو، می ٹو مہم کے زیادہ تر کیسز بے بنیاد ثابت ہوئے۔ فلمی اداکار اور نام ور شخصیات نے ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرا کر کیرئیرز برباد کردئیے لیکن اس کا منفی پہلو یہ بھی ہے کہ عوام الناس جو پہلے بھی ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے جھجک اور تذبذب کا شکار تھے، اس میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ 

Related Posts