آزاد کشمیر کے انتخابات کے نتائج میں اگر حیرانی کا کوئی عنصر ہے تو وہ یہ کہ پی ٹی آئی کو پوری 45سیٹیں کیوں نہیں ملیں۔ جس طرح کے انتظامات کیے گئے تھے ان کے پیش نظر تو شاید 45میں سے 46سیٹیں بھی مل سکتی تھیں مگر کیا کریں بھرم بھی تو رکھنا ہے۔
لائن آف کنٹرول کے پار مودی سرکار کو یہ بھی تو جتلانا ہے کہ ہمارے ہاں چنائو ان سے کہیں بہتر ہوتا ہے لہٰذا حجت پوری کی اور ن لیگ کو 6سیٹوں کی زکوۃ دیدی۔ پیپلز پارٹی تو اسی میں خوش ہے کہ وہ ن لیگ سے آگے ہے اور آصف علی زرداری پر الزامات نواز شریف سے کہیں پیچھے،جب مفاہمت کو سات سلام کریں گے تو 11 سیٹیں ملنی ہی تھیں۔
کشمیر کا انتخابی ریئلٹی شو اب اس مرحلے میں داخل ہو گیا ہے جہاں پر مقامی آبادی بیرسٹر سلطان [ترنگ والے] اور سردار الیاس تنویر [اے ٹی ایم والے] ایک دوسرے کو وزیر اعظم کی کرسی تک پہنچنے کے لیے چت کرنے کی مہم چلاتے ہوئے دیکھے گی۔ باقی پاکستان آزاد کشمیر میں ہونے والے معاملات سے ویسے ہی ہٹ جائے گا جیسے ہم مقبوضہ کشمیر میں بننے والے حالات سے نظریں پھیرے ہوئے ہیں مگر یہ انتخاب پاکستان کے میڈیا کی تجزیاتی لسی کو پتلا کرنے کے لیے استعمال ہوتا رہے گا۔
ایک بڑا موضوع جو مہینوں تک حوالہ بنے گا مریم نواز کی قیادت اور انتخابی مہم میں اپنائے گئے لہجے سے متعلق ہے۔ ابھی سے یہ زاویہ سامنے لایا گیا ہے کہ اگر مریم ہومیو پیتھک قسم کی مہم چلاتی تو شاید ن لیگ دوسرے نمبر پر آ جاتی۔ مضحکہ خیز پہلو یہ تاثر ہے کہ کھل کر بولنے سے سیٹیں کم ہو جاتی ہیں۔ یعنی ووٹ ڈلیں یا نہ ڈلیں زبان درازی یا زبان بندی نتائج پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔
شہباز شریف مریم نواز پر ہونے والی تنقید سے خوش ہوں گے۔ ان کو کسی قسم کی کوئی ذمہ داری لینے کا کوئی شوق نہیں۔ وہ صرف اپنے کاروبار اور خود کو وزیر اعظم بننے کے امکان کا تحفظ چاہتے ہیں۔ انہوں نے اس حد تک عقلمندی کا مظاہرہ کیا کہ آزاد کشمیر کی تمام انتخابی مہم مریم نواز کے حوالے کر دی۔