پاکستانی حکام حالیہ دنوں میں پاکستان تحریک انصاف کے 25 کارکنوں کی فوجی عدالتوں کی جانب سے سنائی گئی سزاؤں پر بڑھتی ہوئی بین الاقوامی تنقید کا سامنا کر رہے ہیں۔
امریکا نے ان سزاؤں پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے، جس میں شفافیت کی کمی، آزاد نگرانی کا فقدان، اور منصفانہ ٹرائل کے حق کی خلاف ورزیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے ایک رسمی بیان میں فوجی عدالتوں کے فیصلوں پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور شہری مقدمات میں عدالتی آزادی اور قانونی عمل کی ضرورت پر زور دیا۔
یورپی یونین نے پہلے ہی پاکستان کے اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ فوجی عدالتوں کی سزائیں بین الاقوامی معاہدے، خاص طور پر بین الاقوامی انسانی حقوق کے معاہدے کی خلاف ورزی ہیں۔
کیا یورپی یونین عمران خان کو سزا دینے ملنے پر جی ایس پی پلس معاہدہ ختم کرسکتی ہے؟
برطانیہ نے بھی ان فوجی عدالتوں کی سزاؤں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ برطانوی وزارت خارجہ نے اس بات پر زور دیا کہ اس طرح کے مقدمات شفافیت کو کمزور کرتے ہیں اور شہریوں کے منصفانہ ٹرائل کے حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہیں، اور پاکستان پر زور دیا کہ وہ بین الاقوامی قانون کے تحت اپنے وعدوں کی پاسداری کرے۔
20 دسمبر کو، پاکستان کی فوجی عدالتوں نے 9 مئی کے احتجاج کے دوران ہونے والے ہنگاموں میں ملوث 25 افراد کو سزا سنائی، جن پر ریاستی اداروں کے خلاف کارروائیوں کے الزامات عائد کیے گئے تھے، جو سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کے نتیجے میں شروع ہونے والے احتجاج کے دوران پیش آئیں۔