افغانستان کا اعتراف

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

تردید کے بعد افغانستان کی نگراں حکومت نے بالآخر یہ قبول کر لیا ہے کہ اس نے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے 40 کارندوں کو گرفتار کرلیا ہے، جو پاکستان کے خلاف ان کی سرزمین سے کام کررہے تھے اور اس وقت جیل میں ہیں۔ یہ پیشرفت اس وقت سامنے آئی ہے جب پاکستان نے اپنے سفیر کو طلب کرکے افغانستان کی حکومت سے سخت احتجاج کیا تھا جس کے بعد پاکستان کے ڈیرہ اسماعیل خان میں سیکیورٹی فورسز پر حالیہ حملے میں 20 سے زائد سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے تھے۔

پاکستان کابل سے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ ساتھ دولت اسلامیہ اور القاعدہ جیسے مفرور عناصر کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان 2,600 کلومیٹر طویل سرحد مشترک ہے جو بنیادی طور پر شمال مغربی خیبر پختونخواہ اور جنوب مغربی بلوچستان کے صوبوں سے گزرتی ہے لیکن ہمسایہ ممالک کے درمیان تعلقات کئی دہائیوں سے کشیدہ ہیں۔ حالیہ مہینوں میں پاکستان میں حملوں میں اضافے کے درمیان تعلقات خاصے کشیدہ ہو گئے ہیں جن کا الزام افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں پر عائد ہوتا ہے۔

کابل میں افغان طالبان کی قیادت والی حکومت نے ہمیشہ اس بات سے انکار کیا ہے کہ وہ افغان سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ لیکن ایک غیر معمولی اعتراف میں، افغان وزارت داخلہ کے ترجمان نے کہا کہ گزشتہ ہفتے تحریک طالبان پاکستان کے 30سے 40عسکریت پسند اس وقت افغانستان میں زیر حراست ہیں۔

بلوچستان کے وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے ایک پریس کانفرنس میں افغان حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ٹی ٹی پی کے تمام گرفتار دہشت گردوں کو پاکستانی حکام کے حوالے کرے اور افغانستان میں ان کی پناہ گاہوں کے خلاف کارروائی کرے۔افغان حکومت کی جانب سے ٹی ٹی پی کے کارندوں کے خلاف کارروائی کا اعتراف ایک اچھی علامت ہے یہ اور افغان طالبان حکومت کی جانب سے ٹی ٹی پی کے کارندوں کو پاکستان پر حملے سے روکنے کے لیے دیگر مضبوط اور ٹھوس اقدامات دونوں ممالک کے تعلقات کو بہتر کر سکتے ہیں اور خطے میں پائیدار امن کے لیے یہ ایک اچھی علامت ہو سکتی ہے۔

Related Posts