حکومت پاکستان اقوام متحدہ کے تعاون سےپاکستان میں افغان مہاجرین کی 40سال کی موجودگی یکجہتی کیلئے ایک نئی شراکت داری کے سلسلے میں 17 اور 18 فروری کو بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کر رہی ہے۔1947 میں قیام کے بعد مملکت خداداد پاکستان کو ہندوستان سے آنیوالے لاکھوں مہاجرین کا بوجھ برداشت کرنا پڑااس کے بعد 1971 کے بعد بنگلہ دیش اور1979میں افغانستان سے آنیوالے لاکھوں مہاجرین نے پاکستان میں پناہ حاصل کی اورآج بھی یہاں مقیم ہیں۔
افغان مہاجرین کی آمد اور عرصہ قیام
پاکستان نے 1979ء میں سوویت یونین کی فوجوں کی آمد کے بعد 60لاکھ کے قریب لٹے پٹے افغانیوں نے بے سروسامانی کے عالم میں پاکستان کا رخ کیا اور پاکستان نے خود وسائل کی کمی کے باوجود فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے افغان بھائیوں کو پناہ دی اور انہیں ہر طرح کا سہارا دیا جبکہ آج بھی پاکستان 30 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کا بوجھ اٹھائےہوئے ہے، پاکستان میں 15لاکھ سے زیادہ رجسٹرڈ اور 15لاکھ سے زیادہ غیر قانونی طور پر افغان رہائش پذیر ہیں ۔پاکستان میں 40سال سے مقیم افغان مہاجرین کے قیام کی مدت 30جون 2020 کو ختم ہوگی،افغان مہاجرین کی دوسری نسل پاکستان میں جوان ہوچکی ہے۔
کس شہر میں کتنے افغان شہری موجود ہیں
خیبر پختونخوا میں8 لاکھ افغان مہاجرین مقیم ہیں، 3 لاکھ 20 ہزار افغان مہاجرین بلوچستان ، ایک لاکھ 60 ہزار پنجاب جبکہ 63 ہزارافغان پناہ گزین سندھ میں مقیم ہیں،اسلام آباد اور آزاد کشمیر میں بھی رہائش پذیر ہیں ۔ ملک بھر میں پناہ گزینوں کے لیے 56 کیمپ ہیں لیکن صرف 4 لاکھ 46 ہزار افغان مہاجرین ان میں مقیم ہیں باقی 62 فیصد مختلف شہروں میں قیام کیئے ہوئے ہیں۔حکومتی اعداد و شمار کے مطابق غیر قانونی طور پر پاکستان میں رہائش پذیر ساڑھے 8 لاکھ ماجروں کو افغان سٹیزن کارڈ جاری کیے گئے ،اس کے علاوہ 5 لاکھ افغان شہری تاحال رجسٹرڈ نہیں ہوئے۔
افغانستان حکومت کا رویہ
افغان حکومت نے 40سال تک اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے عوام کا حق افغانیوں کا کھلانے والے پاکستان کیلئے ممنونیت کے جذبات کا اظہار کرنے کے بجائے پاکستان کو ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنایا اور پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے،30لاکھ سے زائد افغان شہری پاکستانی معیشت ہی پر بوجھ نہیں بلکہ پاکستان کی عزت و آبرو کے منافی سرگرمیوں میں بھی ملوث پائے گئے ہیں اس کے باوجود پاکستان نے ان مہاجرین کو پناہ دے رکھی ہے جبکہ یہ افغان شہری بھی واپس اپنے ملک جانے کو تیار دکھائی نہیں دیتے۔
مہاجرین کے باعث مسائل
40 سال افغان مہاجرین مہمان نوازی کی وجہ سے پاکستان کوپورے ملک میں امن وامان کے مسائل سے دوچار ہونا پڑا، تعلیم اور صحت کی سہولیات کی فراہمی ،کاروبار اور انفراسٹرکچر تباہ ہوا، معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ پاکستان مہاجرین کے قیام کے اجازت نامے میں سالانہ بنیادوں پر توسیع کرتا ہے اور موجودہ اجازت نامہ رواں سال 30 جون میں ختم ہو رہا ہے۔
اقوم متحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہ گزین
اقوم متحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہ گزین فلیپو گرانڈی نے 4دہائیوں سے پاکستان میں افغان مہاجرین کے قیام کوطویل پناہ گزینوں کا بحران‘ قرار دیتے ہوئے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ بے گھر افراد کو نہ بھولیں۔افغان مہاجرین کے واپس نہ جانے کے تاثر کو مسترد کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ 20 برسوں میں 40 لاکھ سے زائد مہاجرین افغانستان واپس گئے جبکہ بہت سے افغان واپسی کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔
پاکستان کا عزم
افغان مہاجرین پاکستان کیلئے سب سے بڑا مسئلہ ہے اور ان پناہ گزینوں کی باعزت واپسی پاکستان کی اولین خواہش ہے، پاکستان پاک افغان بارڈر پر اپنی طرف باڑ لگا رہا ہے جبکہ افغانستان میں جنوب کی طرف 600 کلومیٹر کے علاقہ میں کوئی چوکی ہے نہ کوئی باڑ ہے اور43 فیصد علاقہ حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہے جس کی وجہ سے مسائل پر قابو پانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کا وژن ہے کہ افغان مہاجرین با عزت طریقے سے اپنے وطن واپس لوٹ جائیں، اس سلسلے میں افغانستان کیساتھ تمام معاملات خوش اسلوبی سے حل کئے جا رہے ہیں، پاکستان افغان مہاجرین کے حوالے سے 2 روزہ کانفرنس کی میزبانی کررہاہے ،یہ رفیوجی سمٹ 17 فروری سے اسلام آباد میں ہوگی، وزیر اعظم مہاجرین کانفرنس کا افتتاح کریں گےجس میں 20 ممالک کے نمائندے شریک ہونگے۔