افغانستان میں تیزی سے بدلتے حالات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ آنیوالے دنوں میں مزید پیچیدگیاں پیدا ہونگی اور اس کا گردوغبار پاکستان پر پڑنا علاقائی اور بین الاقوامی سیاست کا قدرتی عمل ہے، حال ہی میں خطے میں کئی ممالک کے ساتھ افغان طالبان کی ملاقاتوں کے ساتھ ساتھ وزرائے خارجہ کے ساتھ رسمی ملاقاتیں اور اہم دورے اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ افغانستان میں روز بروز حالات زوال کی طرف گامزن ہیں اور افغانستان میں سول وار کے خدشات درست ثابت ہوتے دکھائی دے رہے ہیں بلکہ اس کا عکس نظر آنا شروع ہوگیا ہے۔
معاملے کو اس تناظر میں بھی دیکھنا ضروری ہے کہ ایک طرف افغان طالبان چین میں وزیرخارجہ سے ملاقات کررہے ہیں اور دوسری طرف پاکستان کے وزیرخارجہ بھی چین میں اپنے ہم منصب سے ملاقات کررہے ہیں۔
پاکستان اور چین کی طرف سے جاری ہونیوالے مشترکہ اعلامیہ میں اس بات کا اعادہ بھی کیا گیا ہے کہ افغان سرزمین کو مکمل سول وار سے بچانے کیلئے چین اور پاکستان ملکر افغانستان میں آپریشن کرینگے اوراس بات کو یقینی بنائینگے کہ افغانستان کی سرزمین کسی دہشت گردی کیلئے استعمال نہ ہو اور طالبان سے ملاقات میں چین نے یہ مطالبہ سامنے رکھا ہے کہ افغانستان میں ایسٹ ترکمانستان موومنٹ کو پنپنے سے روکا جائے اور ایسٹ ترکمانستان موومنٹ سے تعلق رکھنے والے عناصر کا قلع قمع کیا جائے۔
امریکا کے سیکریٹری اسٹیٹ انتھونی بلنکن بھی ان دنوں بھارت سے ملاقاتوں میں مصروف رہے اور ان ملاقاتوں میں یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ افغانستان کے استحکام کیلئے بھارت کے کردار کو مزید نمایاں کیا جائے اور بھارت کو مزید فعال کردار دیا جائے اور سعودی وزیرخارجہ کا دورہ پاکستان بھی موجودہ حالات کے پیش نظر انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور یہ بات ظاہرہے کہ سعودی عرب کا جھکائو امریکا کی طرف ہوگا اور سعودیہ بھی پاکستان سے ڈومور کی گردان میں شامل رہے گا کہ افغان طالبان کو اشرف غنی کی حکومت کے ساتھ ملکر قومی حکومت کے قیام پر رضا مند کیا جائے۔
طالبان امریکا کے ڈرون حملوں (دوحہ معاہدے کے روح کے برخلاف) کے باوجود اس وقت افغانستان کے بیشتراضلاع پر قابض ہوچکے ہیں اور طالبان کو اپنی طاقت کا بخوبی ادراک ہوچکا ہے اور حالات کے پیش نظر ایسا لگتا نہیں ہے کہ طالبان باآسانی مخلوط حکومت کے قیام پر رضامند ہونگے۔
طالبان جب چاہیں مرکزی اورصوبائی دارالحکومتوں کی طرف پیش قدمی کرسکتے ہیں، اب تک ایسا نہ کرنا طالبان کی حکمت عملی کا حصہ ہے تاکہ طالبان کو بین الاقوامی قبولیت کی سند مل سکے۔
دارالحکومتوں پرتاخیر سے قبضے کی صورت میں امریکا اور بھارت طالبان مخالف قوتوں کو مضبوط بنانے میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں اور ایسی صورت میں سول وار میں تیزی آسکتی ہے اور اس سے ایسا خون خرابہ ہوسکتا ہے کہ عقل دنگ رہ جائے،ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں پاکستان کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ ہونے کا امکان ہے۔
کئی تجزیہ نگاروں کا یہ بھی قیاس ہے کہ امریکا کا افغانستان سے انخلاء ایک پتھر سے دوشکار کرنے کے مترادف ہے، پہلا اپنی افواج کا دوحہ معاہدے کے مطابق انخلاء اور امریکی قوم کو یہ باور کروانا ہے کہ ہم نے افغانستان میں اپنے اہداف حاصل کرلئے ہیں جیسا کہ القاعدہ اور دیگردہشت گرد تنظیموں کو ختم کرنا جس سے امریکا اور اتحادیوں کی سرزمین محفوظ ہوچکی ہے جبکہ دوسرا اہم مقصد بیلٹ اینڈ روڈ انیشٹواورسی پیک کو افغانستان اور پاکستان میں افراتفری پیدا کرکے نقصان پہنچانا ہے۔
ان تمام معاملات کا احاطہ کیا جائے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں جو کٹھن وقت افغانستان پرآنیوالا ہے اس میں کالعدم تحریک طالبان کا مزید مستحکم ہونابھی بعید ازقیاس نہیں ہے اور ٹی ٹی پی کے سربراہ مفتی نورولی محسود امریکی ذرائع ابلاغ کو اپنے انٹرویو میں واضح کرچکے ہیں کہ وہ پاکستان میں شریعہ نظام دیکھنا چاہیے اورپاکستان کی سیکورٹی فورسز کیساتھ ان کی جنگ جاری رہے گی۔
پاکستان کے اکثر عسکریت پسندوں کا بھی یہی ماننا ہے کہ جیسے افغان طالبان افغانستان میں شریعہ نظام کے نفاذ کیلئے کوشاں ہیں اسی طرح پاکستان میں بھی شریعہ نظام کے ذریعے معاملات کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
ان تمام چیزوں کو دیکھتے ہوئے پاکستان میں پیچیدگیاں بڑھتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں اور آنیوالے دنوں میں ان پیچیدگیوں میں اضافہ ہوتا نظر آرہا ہے، پاکستان کو اپنے سفارتی اور دیگر ذرائع کے ساتھ مستقبل میں آنے والے چیلنجزکیلئے مکمل طور پر تیاررہنا ہوگا ۔
پاکستان میں سابقہ فاٹا کے علاقے جن میں افواج پاکستان نے انتھک کاوشوں کے بعد کالعدم تحریک طالبان کے قبضے ختم کروائے ہیں لیکن ٹی ٹی پی کے سربراہ مفتی نورولی محسود نے برملا اظہار کیا ہے کہ فاٹا کے علاقوں کو آزادی دلوانے کیلئے جدوجہدجاری رکھی جائیگی۔
اس چیز کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے عسکری آپریشن کے ساتھ ساتھ پاکستان کو سفارتی اورسیاسی ذرائع سے اقوام عالم کو یہ باورکروانا چاہیے کہ کالعدم تحریک طالبان کو پاکستان میں عدم استحکام سے دوچار کرنے میں رااور دیگربیرونی قوتوں کی مدد حاصل ہے اور ضمن میں پاکستان پہلے ہی اقوام متحدہ کو ڈوزیئر پیش کرچکا ہے لیکن ڈوزیئرپیش ہی کافی نہیں بلکہ تمام سفارتخانوں کو متحرک کرکے اس ڈوزیئر میں دیئے شواہد سے دنیا کو آگاہی دینا بھی ضروری ہے۔
کالعدم تحریک طالبان کی جانب سے ایک بار پھر پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں تیز سے تیز تر ہوجارہی ہیں اورآنیوالے دنوں میں ٹی ٹی پی کی دہشت گردانہ سرگرمیاں مزید بڑھنا نوشتہ دیوار ہے۔ یوں اگر دیکھا جائے تو ایک طرف دہشت گردی کے بڑھتے خدشات ہیں تو دوسری طرف امریکا اور چین کی بڑھتی کشمکش ہے۔
داسو واقعہ کے بعد بھارت اوردیگر بیرونی قوتوں کا ہاتھ صاف ظاہر ہے کیونکہ پاکستان میں جاری منصوبوں میں مصروف چینی ماہرین کو نشانہ بنانے سے چین بدظن ہوکر اپنے قدم کھینچ سکتا ہے جس کاپاکستان متحمل نہیں ہوسکتاگوکہ یہی دشمن قوتوں کی اولین خواہش ہے۔
آنیوالے دنوں میں ہمیں سفارتی، سیاسی اور عسکری لحاظ سے مکمل طور پر چوکنا رہنے کی ضرورت ہے بلکہ ایک متفقہ حکمت عملی کے ذریعے آنیوالے خطرات سے نبردآزما ہونے کیلئے کام شروع کرنا حالات کا تقاضہ ہے تاکہ دنیا بھر میں جو بھی پیغام جائے اس میں مکمل ہم آہنگی حاصل ہوسکے اور ساتھ ساتھ افغان مہاجرین کی یلغار سے قبل اقوام عالم کی رائے ہموار کی جائے تاکہ جب پاکستان پر مہاجرین کی آمد ہوتو حکومتی حلقوں کی طرف سے بھی یہ معاملہ اٹھایا جائے کہ مہاجرین کی آڑ میں دہشت گرد عناصر بھی پاکستان آسکتے ہیں۔
،موجودہ صورتحال میں پاکستان کو ان حالات کیلئے ناصرف مکمل طور پر تیار رہنا ہوگابلکہ ان حالات سے نبردآزما ہونے کیلئے تما م ایس او پیز کے ساتھ ساتھ علاقائی اور بین الاقوامی رائے کو بھی فی الفور ہموار کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔