احتساب قوانین اور بالخصوص احتساب کا وہ قانون جس کی کوکھ سے قومی احتساب بیورو جسے عرف عام میں نیب (نیشنل اکاؤنٹیبلٹی بیورو) کہا جاتا ہے، برآمد کیا گیا، روز اول سے ہی متنازع چلا آرہا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس کی بنیاد اس وقت پڑی جب ملک پر ایک غیر منتخب فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کی حکومت تھی۔
احتساب، کرپشن، چور ڈاکو جیسی اصطلاحات اور الفاظ پاکستانی معاشرے میں نئے نہیں۔ یہ باتیں اور ایک دوسرے پر کرپشن، قومی خزانے کی چوری اور غبن کے الزامات اور مقدمات اس وقت بھی موجود تھے، جب نیب کے ادارے کا وجود بھی نہیں تھا۔ اس وقت بھی یہی پریکٹس جاری تھی، جو قوم دیکھ رہی ہے۔ سیاستدان ایک دوسرے پر الزامات لگاتے، حکومت میں آتے تو کرپشن کے مقدمات قائم کرکے مخالف کی مشکیں کس دیتے۔ وہی اک چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے۔ اب بھی ایک دوسرے پر اسی طرح کی مقدمے بازی ہے جو پہلے بھی اہل سیاست کی روش تھی۔ یہ ایسا حمام ہے جس میں وہ بھی ننگے ہیں، جن کی سیاست کی اٹھان اور بنیادی نعرہ ہی کرپشن کا خاتمہ ہے۔
قوم برس ہا برس سے یہی دیکھ رہی ہے کہ اقتدار پر جس کی بھی گرفت آتی ہے، وہ دو کاموں کی فکر سب سے پہلے کرتا ہے، اول مخالفین پر کرپشن، دہشت گردی اور بغاوت و غداری کے مقدمات اور ثانیاً اپنے اور اپنے ارد گرد والوں کے اوپر مخالفین کے دور میں قائم کیے گئے مقدمات کا خاتمہ۔ یہی ایسی مشق ہے جس سے چور مشہور کیے گئے لوگ مستثنٰی ہیں نہ ہی صاف چلی شفاف چلی والے۔ کل انہوں نے یہی دو کام کیے، آج موجودہ حکمران وہی دو کام کر رہے ہیں۔
جہاں تک نیب کے ادارے کی بات ہے، یہ اپنے قیام کے روز اول سے ہی متنازع اس لیے رہا ہے کہ اس کا قیام جس ماحول اور پس منظر میں عمل میں آیا، وہ اس کو متنازع بنانے کیلئے کافی تھے۔ سیاستدانوں کا خیال ہے کہ احتساب کو مقتدر قوتیں ہمیشہ ان کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی رہی ہیں۔ یہ بات کچھ اتنی بھی غیر حقیقی اس لیے نہیں کہ احتساب کے اس عمل سے برآمد تا حال کچھ بھی نہیں ہوا۔ گیارہ گیارہ سال سیاستدانوں کو جیلوں میں رکھا گیا مگر “لوٹ” کا وہ مال برآمد ہونے کی آج تک قوم نے کوئی خبر نہیں سنی، جس کی بنیاد پر سیاستدانوں کو جیلوں میں ٹھونسا جاتا رہا۔ یہ مشق بجائے خود احتساب کے اس عمل کا اعتبار ختم کرنے کیلئے کافی ہے۔
نیب کو ختم ہونا چاہیے، یا نہیں، اس میں تو دو رائے ہو سکتی ہیں مگر اس میں کوئی دوسری رائے کی گنجائش نہیں کہ احتساب ضروری ہے اور یہ بھی کہ احتساب شفاف، بے داغ، غیر متنازع اور غیر جانبدارانہ اور خود کار ہونا چاہیے۔
یہ سوال بھی اہم ہے کہ نیب سے احتساب کے باب میں قوم کو فائدہ زیادہ ہوا ہے یا اس کے بھاری اخراجات کی شکل میں نقصان زیادہ ہوا ہے۔ نیب کے کردار پر صرف سیاستدانوں کو ہی اعتراض اور سوال جواب نہیں ہیں، عدالتیں بھی اس کی کارکردگی پر مختلف مواقع پر ٹھوس سوالات اٹھاتی رہی ہیں، جن کے جوابات نیب کے اصل ہینڈلرز پر تا حال قرض ہیں۔
نیب اور احتساب کے باب میں ہمارے سیاستدانوں، حکومتوں اور اپوزیشن کے رویوں کے ساتھ اس کی کارکردگی پر سوالات اپنی جگہ، تاہم موجودہ حکومت نے جس عجلت آمیز اہتمام کے ساتھ گزشتہ دنوں نیب قوانین پر وار کیا ہے، یہ بھی کچھ درست اقدام نہیں۔ ان ترامیم کی حقیقت میں کس قدر ضرورت ہے، اس سے قطع نظر بہتر یہی تھا کہ حکومت اس حوالے سے عجلت سے کام نہ لیتی، تمام اسٹیک ہولڈرز بالخصوص اپوزیشن کو بھی کھلے دل سے ساتھ رکھتی اور معاملہ کھول کر عوام کی عدالت میں رکھتی۔ احتساب پوری قوم کی ضرورت ہے، اس کے ادارے، قوانین اور عمل جس قدر شفاف، دو ٹوک، خود کار اور انسانی عمل دخل سے آزاد رہیں گے، اتنا ہی یہ قوم کے حق میں بہتر اور غیر متنازع رہیں گے۔