مبینہ طور پر کراچی سے لاہور جا کر پسند کی شادی کرنے والی دعا زہرا نے شوہر ظہیر کے ساتھ تعلقات خوشگوار نہ ہونے کی تصدیق کردی ہے۔
اس پورے کیس میں کیا کیا اہم پیش رفت سامنے آئیں، آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں۔
دعا زہرا کا نکاح
نکاح نامے کے مطابق دعا کا نکاح 17 اپریل 2022 کو ہوا۔ نکاح نامے میں دعا کا مہر 50 ہزار روپے رکھا گیا جبکہ دعا کی طرف سےکوئی وکیل موجود نہیں تھا اس لیے نکاح نامے میں دلہن کو خود مختار لکھا گیا۔
سیشن کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے نکاح خواں کو کہا کہ اسے صرف دولہا اور دلہن کی عمر کے حوالے سے زبانی اندراجات کو قبول نہیں کرنا چاہیے تھا بلکہ اسے ان کی عمر سرکاری دستاویزی ثبوت کے ذریعے تصدیق کرنی چاہیے تھی۔
کیس میں بیانات کا سلسلہ
کیس کے دوران دعا اور والد کاظمی کی جانب سے بیانات کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ دُعا نے اپنے انٹرویو میں والد پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ پلاٹ کے لالچ میں دُعا کی شادی اُس کے تایا کے بیٹے زین سے کروانا چاہتے تھے۔ جس پر والد نے سر پر قرآن رکھ کر کہا تھا کہ میں ابھی بھی اپنی بیٹی اور زین کی شادی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا، اگر میں جھوٹ بول رہا ہوں تو اللّہ کا قہر مجھ پر ابھی نازل ہوجائے۔
دعا زہرا کیس میں کتنا خرچہ آیا؟
دعا زہرا کیس میں دعا زہرہ کی تلاشی میں چھاپوں سے لے کر عدالت اور میڈیکل بورڈ کے سامنے پیش کرنے میں 30 لاکھ سے زائد کی لاگت تک کا خرچہ آیا۔
کیس میں اہم انکشافات
دعا زہرا کیس کے تفتیشی افسر نے عدالت میں جمع اپنی رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ دعا زہرا کے مبینہ اغوا کے وقت ظہیر احمد کراچی میں موجود تھا۔
دوسرا اہم انکشاف دعا زہرا کے دوسری بار میڈیکل ٹیسٹ کروانے کے بعد سامنے آیا، میڈیکل ٹیسٹ کی رپورٹ میں اس بات کی تصدیق ہوئی ہے کہ مبینہ طور پر اغوا ہونے والی دعا زہرا کی عمر 14 برس ہے۔
پاکستان میں لڑکیوں کی اسمگلنگ کے واقعات
دعا زہرا کے والد کی جانب سے شروع سے ہی یہ بیان سامنے آرہا ہے کہ دعا زہرا کو ظہیر احمد نے ورغلا کر اغوا کیا ہے، جبکہ پاکستان کے کچھ نامور صحافیوں کا کہنا ہے کہ دعا زہرا کو ملزم ظہیر نے جھانسہ دے کر جسم فروشی کے لیے اغوا کیا ہے۔
پاکستان میں لڑکیوں کو شادی کا جھانسہ دیکر اسمگل کرنے کے کیسز میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ پنجاب پولیس نے رواں سال جنوری سے صرف مارچ کے مہینے تک سرگودھا سے 151 لڑکیوں کو بازیاب کرایا ہے جبکہ صوبے بھر میں 3571 لڑکیاں اور خواتین لاپتہ رہیں۔ اس سے پورے ملک میں خواتین کی اسمگلنگ کے واقعات کا اندازہ با خوبی لگایا جاسکتا ہے۔ کم عمر لڑکیوں کو شادی کا جھانسہ دہ کر جسم فروشی کے واقعات کی ایک لمبی فہرست موجود ہے۔ دعا زہرا کیس کے بعد حکومت کو کم عمری میں لڑکیوں کی شادی اور خواتین کی اسمگلنگ جیسے جرائم کے خلاف اہم اقدامات اٹھانے کی سخت ضرورت ہے۔
عدالت کا فیصلہ
دعا زہرا نے جوڈیشنل مجسٹریٹ کے سامنے یہ انکشاف کیا کہ ان کے پاس رہنے کے لیے چھت نہیں ہے، انہوں نے رشتے دار کے گھر رات گزاری کیونکہ ظہیر سے تعلقات خوشگوار نہیں رہے۔ دعا نے کہا کہ والدین کی جانب سے بھی سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جارہی ہیں، وہ مجھے مارتے بھی تھے لہذا اپنی سیکیورٹی کے لیے اپنی مرضی سے دارالامان جانا چاہتی ہوں۔ دعا زہرا کے بیانات سننے کے بعد عدالت نے دعا کو لاہور کے دار الامان بھیجنے کا فیصلہ سنا دیا۔
ظہیر کی گرفتاری
وزیر اعظم اسٹریٹجک اصلاحات کے سربراہ سلمان صوفی نے اپنی ٹوئٹ میں کہا ہے کہ عدالتی حکم کے بعد حکومت پنجاب نے دعا زہرا کو سخت حفاظتی انتظامات میں دارالامان منتقل کردیا ہے جبکہ ظہیر کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں۔
سلمان صوفی نے مزید کہا کہ سندھ حکومت سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ دعا زہرا کو اس کے والدین تک پہنچانے کے لئے خصوصی ٹیم بھیجے۔