عینک والا جن سے شہرت پانے والے ڈرامہ نگار اے حمید کی 9ویں برسی

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

عینک والا جن سے شہرت پانے والے ڈرامہ نگار اے حمید کی 9ویں برسی
عینک والا جن سے شہرت پانے والے ڈرامہ نگار اے حمید کی 9ویں برسی

عینک والا جن پاکستان ٹیلی ویژن پر پیش کیے جانے والے یادگار ڈراموں میں سے ایک ہے جس نے قبل ازیں بچوں کے تمام ڈراموں کی شہرت کے ریکارڈز توڑ ڈالے جبکہ یہ ریکارڈ توڑ ڈرامہ تحریر کرنے کا اعزاز جس شخصیت کو حاصل ہوا ، انہیں دنیا اے حمید کے نام سے جانتی ہے جن کی وفات کو آج 9 سال مکمل ہو گئے ہیں۔

یہ حقیقت اپنی جگہ کسی حیرت انگیز سچائی سے کم نہیں کہ اے حمید صرف ڈرامہ نگار نہیں تھے، بلکہ وہ اُردو زبان کے مزاح نگار اور افسانہ نگار بھی تھے جن کی تخلیقات کی تعداد درجنوں میں ہے، تاہم عینک والا جن کا سحر سامعین و ناظرین کے ذہنوں پر ایسا سوار ہوا کہ آج بھی جب اس ڈرامے کا نام لیا جاتا ہے تو لوگ تصور کی دنیا میں کھو کر کہیں اور پہنچ جاتے ہیں۔

عینک والا جن اور تصور کی دنیا

عینک والا جن بھوت پریت، چڑیلوں اور جادوگروں کی حیرت انگیز لڑائیوں کی داستان ہے جو صرف تصور کی دنیا سے تعلق رکھتی ہے۔ بے شک اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، تاہم عینک والا جن نامی اس ڈرامے کو بچوں کے ساتھ ساتھ بڑوں میں بھی پذیرائی حاصل ہوئی اور بے شمار افراد نے بچوں کا ساتھ دینے کے بہانے عمروعیار کی زنبیل اور سامری جادوگر کی کہانیوں کی یاد تازہ کر لی۔

جن اور پریوں کی یہ داستان پاکستان کے سامعین و ناظرین کو ورطۂ حیرت میں مبتلا کر رہی تھی۔ اے حمید نے ڈرامہ نگار کی حیثیت سے عینک والا جن میں تصور کی وہ شعبدہ بازیاں دکھائی ہیں جن سے ناظرین کی دلچسپی میں بے پناہ اضافہ ہوا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عینک والا جن کی شہرت بڑھتی چلی گئی۔ حفیظ طاہر کے ساتھ ساتھ صفدر سحر نے بھی ڈرامے میں ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کیا۔

تاریخ کا طویل ترین ڈرامہ

جب عینک والا جن شروع ہوا تو خود ڈرامہ نگار کو بھی یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ کتنا طویل ہوگا کیونکہ عام طور پر پی ٹی وی میں ڈراموں کی قسطیں 13 یا 20 ہوا کرتی تھیں اور ڈرامہ ہفتہ وار پیش کیا جاتا تھا۔ گویا ایک ڈرامہ زیادہ سے زیادہ 1 یا 2 سال میں ختم ہوجاتا تھا لیکن عینک والا جن پی ٹی وی کی تاریخ کا طویل ترین ڈرامہ ثابت ہوا۔

فروری 1993ء میں شروع ہونے والے ”عینک والا جن“ نامی ڈرامے کا سفر مجموعی طور پر 285 اقساط اور 11 سال پر محیط ہے جو 2004ء تک چلا۔ یہ پی ٹی وی کی تاریخ کا وہ ریکارڈ ہے جسے آج تک کوئی ڈرامہ نہ توڑ سکا۔ ڈرامے کے مشہور کردار میں بل بتوڑی، ہامون جادوگر، بھوتوں کی رانی کرنانی، عینک والا جن (نستور) اور زقوٹا جن مشہور ہیں۔

اے حمیدکی زندگی اور تخلیقی و پیشہ ورانہ سفر

اے حمید کا اصل نام عبدالحمید ہے۔25 اگست 1928ء ان کی تاریخِ پیدائش ہے جبکہ ان کی جنم بھومی برطانوی ہندوستان ہے۔ اے حمید نے میٹرک تک تعلیم امرتسر سے مکمل کی۔ بعد ازاں سن 1947ء میں پاکستان بننے کے بعد اے حمید نے انٹر تک تعلیم مکمل کی اور ریڈیو پاکستان سے منسلک ہو گئے۔ کچھ عرصے بعد ریڈیو پاکستان چھوڑا اور وائس آف امریکا کیلئے کام کرنے لگے۔

قیامِ پاکستان کے بعد یعنی سن 1948ء میں ہی اے حمید کا پہلا افسانہ منزل منزل ادبِ لطیف نامی جریدے میں شائع ہوچکا تھا۔ اے حمید  رومانوی افسانہ نگار کے طور پر اپنی ایک الگ شناخت اور شہرت رکھتے تھے  جبکہ انہوں نے کالم نگار کے طور پر اخبارات کو بھی بے شمار کالمز دئیے۔ اس کے علاوہ ریڈیو اور ٹی وی کیلئے بے پناہ کام کیا اور لازوال شہرت پائی۔

اے حمید اردو زبان و ادب میں بے پناہ دلچسپی رکھتے تھے جس کا ثبوت ان کی تصانیف اردو شعر کی داستان اور اردو نثر کی داستان سے ملتا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے یادوں کے گلاب، ڈربے، طوفان کی رات اور بارش میں جدائی سمیت بے شمار افسانے لکھے جو اپنے قارئین پر انمٹ نقوش چھوڑ گئے اور آج بھی اگر ان کے افسانے اٹھا کر پڑھے جائیں تو انسان ایک نئی دنیا میں پہنچ جاتا ہے۔

افسانہ نگاری اور ناول نگاری کے علاوہ اے حمید نے تاثرات نگاری کا کام بھی بخوبی انجام دیا۔ امرتسر کی یادیں ان کی خودنوشت قرار دی جاسکتی ہے جس میں انہوں نے اپنے آبائی شہر کی یادوں سے جڑے ہوئے ان گنت تلخ و شیریں حقائق قارئین کے سامنے رکھ دئیے ہیں جبکہ انہوں نے مزاح نگاری بھی خوب کی۔

قصہ آخری درویش کا اے حمید کی مزاح نگاری کی تخلیق ہے جس میں انہوں نے قارئین کو گدگدایا بھی ہے اور متعدد مقامات پر ہنسنے پر بھی مجبور کیا ہے۔ انہوں نے مشہور ڈرامہ نگار اور دانشور  اشفاق احمد کی سوانحِ حیات بھی لکھی ہے جس میں انہوں نے ہم عصر ڈرامہ نگار کے حالاتِ زندگی بیان کیے ہیں۔

تخلیقی سفر کا حاصل

غور کیا جائے تو اے حمید نے سب سے زیادہ توجہ کے ساتھ تخلیق کے سفر میں جو کام انجام دیا ہے، وہ ناول نگاری ہے جس میں انہوں نے طرح طرح کے مضامین تراشے اور دلآویز نثر نگاری، حقیقت پسندانہ جزئیات اور گہرائی و گیرائی کے جوہرِ آبدار سے اپنے قارئین کو بے تحاشہ محظوظ کیا ہے، اس کے باوجود ڈرامہ نگار کے طور پر انہیں بے مثال شہرت ملی۔

جس وقت اے حمید نے عینک والا جن نامی ڈرامہ تحریر کیا اور اسے عوام کے سامنے پیش کیا گیا، عوام الناس کی اکثریت اے حمید کے نام سے کماحقہ واقف نہیں تھی جبکہ عینک والا جن نے انہیں اتنا مشہور کیا کہ آج کی نئی نسل بھی اگر وہ ڈرامہ دیکھتی ہے تو ڈرامہ نگار کو داد دئیے بغیر نہیں رہتی۔

سفرِ آخرت

زندگی کا سفر چاہے کتنا ہی دلآویز، کامیابیوں سے بھرپور اور تخلیقی توانائی سے لبریز کیوں نہ ہو، آخر کار اسے موت سے ہمکنار ہونا ہوتا ہے اور یہی بنی نوع انسان کیلئے ہر دور کی سب سے بڑی سچائی ہے۔ اے حمید کو سانس کی تکلیف ہوئی تو ہسپتال لانا پڑا لیکن علاج سے انہیں کوئی افاقہ نہ ہوا۔

وقت کے ساتھ ساتھ اے حمید کی سانس کی تکلیف کم ہونے کی بجائے بڑھنے لگی جس سے ان کے اہلِ خانہ شدید تشویش میں مبتلا ہوئے۔ آخری ایام میں اے حمید بات چیت کے بھی قابل نہیں رہے۔ بولنے کے لیے زور لگاتے تو آنکھیں آنسوؤں سے بھرجاتیں۔

کئی دنوں تک اے حمید کو وینٹی لیٹر پر رکھا گیا ۔بعد ازاں ڈاکٹرز نے ان کا آپریشن کرکے گردن میں سوراخ کردیا تاکہ وہ سانس لے سکیں، تاہم زندگی کا سفر اپنے اختتام کے بالکل قریب آچکا تھا اور بالآخر 29 اپریل کی شب 2 بجے اے حمید کے جسم میں پانی بھرنے لگا جس کا ڈاکٹروں کے پاس کوئی علاج نہیں تھا۔

اے حمید کے علاج معالجے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی، تاہم وقتِ مقررہ کی آمد پر عینک والا جن کے ڈرامہ نگار اے حمید آج سے ٹھیک 9 سال قبل خالقِ حقیقی سے جا ملے، تاہم عینک والا جن سمیت ان کی متعدد تخلیقات ریکارڈنگز اور کتابیں ان کی یادگار کے طور پر موجود ہیں جو ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گی۔

Related Posts