سسکتے کراچی کا روشن مستقبل

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کراچی کا60 ء کی دہائی میں دنیا بھر کے خوبصورت ترین شہروں میں شمار ہوا کرتاتھابہت ہی پرامن اور اجلاجلاسا کراچی جہاں دنیا بھر کے سفارت کار اور سیاح صبح و شام بلاخوف و خطر گھوما پھرا کرتے تھے ،اس شہر کا ساحل پوری دنیا میں گنتی کے ساحلوں میں سے ایک تھا۔

یورپ ،امریکا،عرب ممالک،سویت یونین ،جاپان سمیت متعدد ممالک کے جہاز کراچی میں اترا کرتے تھے جہاں مسافر کراچی کی سڑکوں اور بازاروں میں ایک دو گھنٹے گزار کرواپس اپنے دیس چلے جاتے تھے ،ان بازاروں میں دنیا بھر کی جدید ترین اشیاء ملا کرتی تھیں جن میں سے کچھ مصنوعات ماسوائے ان بازاروں کے اور کہیں نہیں مل سکتی تھیں ۔

یہ وہ زمانہ تھا جب کراچی روشنیوں کا شہر ہواکرتا تھا جس کی روشنیوں میں دن اور رات کا احساس ہی نہیں ہوپاتاتھا،یہاں کے لوگ بہت سلجھے ہوئے تھے دفاتر میں بیٹھے بیوروکریٹس عوام کی خدمت پر یقین رکھا کرتے تھے، شاید یہ سب کچھ جو میں نے بیان کیا مکمل طور پر ایسا نہ دیکھا ہو مگر جن لوگوں نے دیکھا وہ اس حسین خواب کو جب بیان کرتے ہیں تو اکثر میں دیکھتاہوں کہ ان بزرگوں کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں جیسے کوئی بہت ہی قریبی عزیز ان سے بچھڑ گیاہو۔

یہ وہ وقت تھا جب پاکستان کے معیار تعلیم کو پوری دنیا میں سراہا جاتاتھاجہاں طالب علم یورپ عرب ممالک افریقہ،ایران ،افغانستان اور چین سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے پاکستان آ تے تھے اور یہاں آکر کراچی کی یونیورسٹیوں اورکالجز میں داخلہ لیا کرتے تھے ،کراچی کا بینکنگ نظام بہت جاندار تھا لوگ یہاں کاروبار کھول کر چند دنوں میں خوشحال ہوجایا کرتے تھے۔

عوام کی سہولتوں کے لیے بجلی اور گیس کا نظام حیرت انگیز طورپر اس قدر بہترین تھا کہ لوگوں کو لوڈشیڈنگ جیسے معاملات کا علم ہی نہیں ہواکرتا تھا اور سب سے بڑھ کر سیوریج کا ایسا شاندار سسٹم تھا کہ بارش کے فوری بعد ہی سڑکوں سے پانی غائب ہوجاتا تھا۔

میں جب اس قسم کی گفتگو لوگوں سے سنتاہوں تو کبھی کبھار تو میری بھی آنکھیں بھر آتی ہیں ،سوچتا ہوں کہ وہ کون سے حکمران تھے جو اس شہر کو برباد کرتے رہے اور وہ کون لوگ تھے جو چپ چاپ کھڑے اس کی بربادی کا نظارہ دیکھتے رہے ،سوچتا ہوں کہ پاکستان کو معاشی اعتبار سے پالنے والے اس کراچی کو آخر کس کی نظر لگ گئی ہے جہاں ماضی میں ٹرام اور سرکلر ریلوے جیسی سہولیات میسر ہواکرتی تھی ۔

کراچی کا ماضی اور آج ہم دیکھیں تو محسوس ہوگا کہ کس قدر بدل گیا ہے ،کراچی میں آج جا بجا کچرے کے ڈھیر اور سڑکوں پر کنویں کی طرز کے بڑے بڑے گڑھے پڑے ہوئے ہیں ،ماضی میں کراچی کی سڑکو ں کی صبح کس قدر اجلی اجلی سی ہوا کرتی تھی ،روزانہ صبح صادق ہی سڑکوں کو دھودیا جاتاتھا ،ایک بھینی بھینی سی خوشبو کراچی کی خوبصورتی کا احساس دلایا کرتی تھی ۔

اونچی اونچی بلند وبالا عمارتوں کے جلوئے دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے لوگ یہاں آیا کرتے تھے ،جگہ جگہ کھیلوں کے میدانوں سے آباد یہ شہر اپنی مثال آپ ہوا کر تاتھا آج جہاں کھیلوں کے میدان ہوا کرتے تھے ،وہاں اب بڑے بڑے مافیا کے لوگوں نے بلڈنگیں کھڑی کررکھی ہیں ، ان ظالموں نہ اس شہر میں ایک چالیس گز کی زمین تک کو نہ چھوڑا ہے،جنھیں متعلقہ محکموں کے سربراہوں کا پیٹ بھر کے بہت آسانی سے انسانوں کی زندگیوں سے کھیلنے کا موقع مل جاتاہے۔

یہ سب باتیں صرف سنی سنائی نہیں بلکہ دیکھی بھالی بھی ہیں جس انداز میں اس شہر کی خوبصورتی کو ایک سازش کے تحت خراب کیا گیا عوام اب اس حقیقت سے آشنا ہوچکی ہے اور ماضی کے ان سیاستدانوں کو بھی پہچان چکی ہے ۔

قارئین کرام آج اس تباہی اور بربادی کی داستان کو مجھ سمیت بہت سے لوگ بیان کرچکے ہیں مگر خوشی کی بات یہ ہے کہ اس ملک کے سر پراب ایک ایسے وزیراعظم کاسایہ ہے جو پاکستان کو ایک بار پھر سے ترقی او ر خوشحالی راہ پر ڈالنے کا عزم رکھتاہے جو کراچی شہر کی بربادی کو خوشحالی میں بدل دینے کا عزم لیکر آیاہے جس نے تاریخ میں پہلی بار اس شہر کو گیارہ سو ارب روپے کا ایک تاریخی پیکیج دیا جس پرکام الحمداللہ اب شروع ہوچکاہے ۔

اب میں دوستوں کی نظر جو تحریر کرنا چاہتا ہوں اس کا تعلق حقیقت سے کتنا قریب تر ہے اس کا فیصلہ میری اس تحریر کو پڑھنے والے دوست احباب خود ہی کرلینگے اور مجھے بھی اپنی رائے سے ضرور آگاکرینگے ، تو پھر کچھ اور آگے کی جانب بڑھتے ہیں ، آجکل کراچی ویژن 2050 کی تیاریوں کے حوالے سے سوشل میڈیا پر کچھ خبریں زیر گردش ہیں جو یہ ہیں کہ 2020سے 2050تک کراچی ماسٹر پلان کی تیار ی شروع ، کراچی شہر کو وفاق کے زیر انتظام فیڈرل ٹرینی اور حیدرآباد کو سندھ کا دارالخلافہ بنانے کا فیصلہ کرلیا گیاہے،کراچی کو مزید بربادیوں سے بچانے کے لیے کراچی کو مستقل طور پر وفاق کے زیر کنٹرول رکھا جائے گا ، فاٹا کی سینٹ نشستیں ختم کر کہ کراچی کو الاٹ کی جائیں گی۔

وفاقی حکومت پہلے مرحلے میں سندھ میں گورنر راج نافذ کر کے صوبائی حکومت کو برطرف کر کے پولیس میں آئی جی سندھ سے لیکر ایس ایس پی اور کراچی کے تمام پولیس اسٹیشن کے عملے کو تبدیل کیا جائے گا جس کے بعد صدارتی آرڈیننس جاری کرکے کراچی کو وفاقی علاقہ ڈکلیئر کر کہ چیف ایڈمنسٹریٹرتعینات کیا جائے گا۔

سندھ اور کراچی میں امن وامان برقرار رکھنے کے لیئے چھ مہینوں تک 144نافذ کر کے ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیئے فوج کو تیار رکھا جائے گا، گورنر راج سے پہلے رینجرز اور یف سی کے اضافی دستے کراچی اور سندھ بھیجے جائیں گے ،ریلی نکالنے ،ہڑتالیں کرنے والے حالات خراب کرسکتے ہیں اس لیئے ان کے اوپر سخت نظر رکھی جائے ۔

حکومت وفاقی اور بلدیاتی ایک نظام نافذ کریگی، کراچی میں اضلاع ختم کر کے چالیس ٹاؤن اور 320 یونین کمیٹیاں بنائی جائیں گی ، ہر سال وفاقی پول سے کراچی بلدیاتی حکومت کو پچاس ارب روپیہ دیا جائے گا، تعلیم ، صحت، پولیس، لینڈ اینڈ یوٹیلائزیشن ، کسٹم ، ٹیکس اینڈ ریونیو، ساحلی کوسٹل ایریاز، معدنیات، کے ڈی اے، فشریز، انڈسٹریل ایریاز، وفاق کے کنٹرول میں رہیں گے۔

اس کے علاوہ پانی ، سیوریج، ٹریفک، ٹرانسپورٹ، پارکس وگراؤنڈز ، مارکیٹ بازار، پارکنگ ، سیاحت ، سبزی منڈی، برساتی نالے، سولڈ ویسٹ مینجمنٹ ، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، بلدیاتی حکومت میئر کراچی کے اختیارات ارو کنٹرول میں دیئے جائیں گے۔

کراچی وفاق کے کنٹرول میں آنے کے بعد وفاقی حکومت کو 472ارب روپے اضافی آمدنی ہوگی ملک معاشی لحاظ سے مستحکم ہوگا، اربن اور رورل کوٹہ سسٹم ختم کر کے موجودہ وفاقی کوٹہ سسٹم لاگو کیا جائے گا، کراچی میں رورل کوٹہ سے نوکری حاصل کرنے والے ایک لاکھ ملازمین کو سندھ واپس بھیجا جا ئے گا جس کے بعد کراچی سمیت ملک بھر کے نوجوانوں کو وفاقی کوٹہ پر روزگار ملے گا، کراچی کی حدود میں تحصیل میر پور ساکرو ، کیٹی بندر، گڈانی ، حب، مکمل شامل کر لیئے جائیں گے۔

تھانہ بولا خان، ٹھٹھہ تحصیل کا بڑا علاقہ بھی کراچی میں شامل کر کے گجو اور نوری آباد تک اضافہ کردیا جائےگا، بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر وہاں دو نئے شہر بسائے جائیں گے حب کہ دھابیجی اور نوری آباد میں ملک کے سب سے بڑے تین انڈسٹریل زون اور میر پور ساکرو میں پورٹ کا قیام عمل میں لایا جائے گا جس سے 2030تک دس لاکھ افراد کو روزگار ملے گا۔

حب اور گڈانی تحصیلوں کو کراچی میں شامل کرنے کے بدلے بلوچستان حکومت کو دس ارب دیے جائیں گے جہاں بارہ لاکھ پلاٹوں پر مشتمل پاکستان ہاؤسنگ کا سنگ بنیاد رکھا جائے گا جس میں دو لاکھ پلاٹ بلاچستان کے لیئے رکھے جائیں گے، گڈانی بیچ کو انٹرنیشنل اسٹائل میں تبدیل کرنے کے لیئے کمپنیوں سے دو مہینے پہلے ہی وفاقی حکومت رابطہ کرچکی ہے ۔

کراچی ایم نائن موٹروے پر ملک کا سب سے بڑا انٹرنیشنل ایئر پورٹ تعمیر ہوگا جبکہ وفاقی حکومت پہلے ہی سمند ر کے نزدیک بیراج بنانے کا اعلا ن کرچکی ہے جہاں سے کراچی کو پانی دیا جائےگا جبکہ موٹروے پر بننے والی نئی آبادیوں کے لیئے کینجھر جھیل سے پانی کی لائن بچھائی جائی گی۔

اس کے علاوہ کراچی کے دو جزیروں پر عالمی کمپنیوں کے ساتھ ملکر ہانگ کانگ طرز کا جدید انٹرنیشنل شہر آباد کیا جائےگا جس سلسلے میں کمپنیوں سے پچاس ار ب ڈالر کی ڈیل آخری مراحل میں ہے، لاہور اور فیصل آباد کے تین سو پچیس سے زائد انڈسٹریل سرمایہ دار دھابیجی ، نوری آباد، حب انڈسٹریل زون میں پانچ سو نئے کارخانے لگائے جائیں گے جبکہ انٹرنیشنل ، ملٹی نیشنل کمپنیاں اور دیگر ادارے تقریبا 56ارب ڈالر انویسٹ انڈسٹریل زون میں کریں گے۔

موٹر وے ایجوکیشنل سٹی میں نئی یونیورسٹیاں بنائی جائیں گی، دوستو جیسا کہ بیان کیا جاچکاہے کہ تحریر کا یہ ٹکڑا سوشل میڈیا پر گردش کرتا ہوا ایک چھوٹا سا جگنو ہے دیکھنا یہ ہے کہ اس جگنوکو کون کون چمکتا ہوا دیکھنا چاہتاہے اور کون ایسا ہے خواہش مند ہے کہ جو یہ چاہتاہے کہ جو لکھا ہے بالکل ویسا ہی ہوجائے اورجو دوست اس تحریر سے اتفاق نہیں بھی کرتے ان کی رائے کا بھی احترام کرنا میرا فرض ہے ۔ آپ کی فیڈ بیک کا انتظار رہے گا ۔

Related Posts