جب ایک بچہ جنم لیتا ہے تو زیادہ تر اُسے آنکھ کھولتے ہی سب سے پہلی صورت اپنی ماں کی نظر آتی ہے جس سے وہ بے پناہ محبت شروع کردیتا ہے اور اپنی ہر ضرورت کیلئے اُسے پکارتا ہے۔
ماں کے ساتھ ساتھ بہن، بیٹی، بیوی اور دیگر رشتوں کا روپ دھار کر ہمارے ساتھ رہنےاور ہماری ہر اچھی بری بات سہنے والی خواتین عالمِ انسانیت کے ہاتھوں روزِ اوّل سے آج تک ظلم و ستم کا شکار نظر آتی ہیں۔
آج ناروے جیسا آزادئ اظہارِ رائے کے نام پر مذہبی کتابوں کی بے حرمتی کرنے والا ملک ہمیں جدید اور ترقی یافتہ محسوس ہوتا ہے، تاہم سن 1907ء میں آج ہی کے روز ناروے نے خواتین کے ووٹ ڈالنے پر پابندی عائد کردی تھی۔
اگر ہم اسلام کی بات کریں تو اسلامی تاریخ سے قبل دورِ جاہلیت کے نام سے عشروں پر محیط ایک طویل عرصہ نظر آتا ہے جس کے دوران خواتین پر طرح طرح کے ظلم و ستم ڈھائے جاتے تھے۔
بے شک زمانہ قدیم میں بھی خواتین کے حقوق پامال کیے جاتے تھے، تاہم اختصار کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہم خواتین کے حقوق کی مختصر تاریخ دورِ جاہلیت سے شروع کرتے ہیں۔
خواتین کے حقوق سے مراد
مختلف مذاہب، مسالک اور ممالک کے قوانین کے تحت خواتین کے مختلف حقوق ہیں جن میں زندہ رہنا، تعلیم حاصل کرنا، وراثت، کاروبار کرنا اور دیگر اہم اور بنیادی انسانی حقوق شامل ہیں۔
یہ سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک خاتون کو بھی اتنی ہی صلاحیتوں سے مالامال کیا ہے جتنی کہ کسی مرد میں ہوسکتی ہیں، تاہم جسمانی اعتبار سے دونوں میں فرق ہے اور دونوں کے فرائضِ منصبی اسی اعتبار سے تبدیل بھی کیے جاسکتے ہیں۔
دورِجاہلیت میں خواتین کے حقوق
عرب معاشرہ حضورِ اکرم ﷺ کی آمد سے قبل انتہائی پسماندہ تھا جو جنگ و جدل، لوٹ مار اور چوری سمیت متعدد برائیوں میں نہ صرف ملوث بلکہ ان پر فخر کیا کرتے تھے۔
اگر گھر میں بیٹا پیدا ہوتا تو اہلِ عرب فخر کرتے اور اگر بیٹی پیدا ہوتی تو اسے زندہ قبر میں اتار کر اپنی غیرت کا ثبوت دیتے تھے یعنی بیٹی کو قتل کرنا ان کیلئے باعثِ افتخار تھا جس سے انسانی اخلاق و کردار کی بد ترین حالت کا پتہ چلتا ہے۔
دورِ جاہلیت میں خواتین کے حقوق کا کوئی تصور نہیں تھا۔ خواتین کے ساتھ جانوروں کا سا سلوک کیا جاتا تھا۔ ان کے ساتھ مارپیٹ کرنا، جنسی زیادتی اور ظلم و ستم کی دیگر صورتیں حد سے زیادہ خوفناک صورت اختیار کرچکی تھیں۔
اسلام کی آمد کے بعد خواتین کے حقوق
ہر مسلمان بطور نبئ آخر الزمان حضورِ اکرم ﷺ کی جو عزت و تکریم کرتا ہے، وہ اپنی جگہ لیکن بطور انسان حضورِ اکرم ﷺ کے کردار سے اہلِ مغرب بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے خواتین کے حقوق سمیت زندگی کا کوئی بھی گوشہ تشنہ تکمیل نہیں چھوڑا، تاہم بدقسمتی سے امت حضور ﷺ کے وصال فرمانے کے بعد دوبارہ برائیوں میں مبتلا ہوگئی۔
اسلام ہمیں خواتین کے حقوق کا احترام کرنے کا درس دیتا ہے لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ خواتین کے حقوق مسلم ممالک سمیت دنیا کے ہر ملک میں بری طرح پامال ہو رہے ہیں۔
اختیارات کی جنگ اور خواتین کے حقوق
جس کے پاس طاقت اور اقتدار ہوتا ہے وہ اپنے من مانے فیصلے دوسرے پر مسلط ضرور کرتا ہے۔ آکسفیم نامی برطانوی تنظیم کے مطابق ہر روز خواتین گھریلو کام کاج میں مصروف رہتی ہیں جنہیں مالی معاوضہ کبھی ادا نہیں کیا جاتا۔ اگر اِس کام کی کم سے کم اُجرت طے کر لی جائے تو سالانہ 11 کھرب ڈالر بنیں گے۔
برطانوی تنظیم نے یہ بھی کہا کہ گھریلو کام کاج کرنے والی خواتین کو یہ رقم ادا کی جائے، تاہم مالی تحفظ خواتین کا حق ہے جو مرد حضرات انہیں دیتے ہوئے جھجکتے ہیں کہ کہیں ان کا اقتدار خطرے میں نہ پڑ جائے جبکہ دنیا کا معاشی نظام بھی صنفی امتیاز کی بنیاد پر کام کرتا ہے۔
خواتین کے حقوق پر کچھ اعدادوشمار
دنیا بھر میں ہر 90 سیکنڈ کے بعد ایک خاتون زچگی یا بچے کی پیدائش کے دوران جاں بحق ہوجاتی ہے جبکہ زیادہ تر ایسی جانوں کو بچایا جاسکتا ہے، لیکن صنفی امتیازاور جہالت کے باعث یہ جانیں ضائع ہوجاتی ہیں۔
زچگی کے دوران ہر 4 میں سے 1 یعنی تقریباً 25 فیصد خواتین کو جسمانی یا جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لاپتہ اور پناہ گزین افراد میں سے 80 فیصد تعداد خواتین کی ہے جنہیں ان کا ملک یا رشتہ دار اپنا نہیں پاتا جبکہ قتلِ عام اور جنسی تشدد کے آلات زیادہ تر خواتین کو مدِنظر رکھتے ہوئے بنائے جاتے ہیں۔
زیادہ تر فیصلہ سازی کے عمل میں خواتین کو شریک نہیں کیاجاتا۔ عسکری معاملات، ملکی و سیاسی صورتحال اور دیگر اہم معاملات میں خواتین کے نمائندگی کے حقوق مجروح کیے جاتے ہیں۔ امریکا میں خواتین کو ووٹنگ کا حق سن 1920ء میں دیا گیا۔
جنسی استحصال اور حقوق کی پامالی کے باعث خواتین کی ایک بڑی تعداد ایڈز جیسے موذی مرض میں مبتلا ہے۔ 1 کروڑ 88 لاکھ خواتین ایڈز کا شکار ہیں جبکہ امریکی حکومت کے اعدادوشمار کے مطابق ہر سال تقریباً 8 لاکھ افراد کو آج بھی دورِ غلامی جیسے مظالم کا سامنا ہے کیونکہ انہیں خریدا اور بیچا جاتا ہے جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔
دنیا بھر میں بڑی تعداد میں غریب لوگ موجود ہیں جن میں سے 70 فیصد ایسی خواتین ہیں جو خطِ افلاس سے بھی نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں یعنی ایک دن میں وہ 1 ڈالر یعنی 165روپے سے بھی کم خرچ کرسکتی ہیں۔ 18 سال سے کم عمر نابالغ بچیوں کی تعداد تقریباً 6 کروڑ ہے جنہیں بلوغت سے قبل بیاہ دیاجاتا ہے۔
دنیا بھر میں 60 کروڑ 30 لاکھ خواتین ایسے ممالک کی رہائشی ہیں جہاں گھریلو تشدد کو جرم نہیں سمجھا جاتا، یعنی اگر شوہر بیوی پر یا ساس سسر اپنی بہو پر تشدد کریں یا پھر باپ اپنی بیٹی پر یا بیٹا ماں پر تشدد کرے تو اس پر کوئی پولیس کیس نہیں بنتا۔
بچیوں کی شادی قرآن سے کرکے انہیں حقِ نکاح سےمحروم کیاجاتا ہے۔ بہنوں کی جائیداد بھائی اور ماؤں کی بیٹے کھا جاتے ہیں۔ کاروکاری کے نام پر من مرضی کے الزامات لگا کر خواتین کو قتل کردیاجاتا ہے۔
ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
مملکتِ خداداد پاکستان میں نافذ قوانین کے تحت خواتین کو وراثت، تعلیم، روزگار اور معاش سمیت ہر بنیادی انسانی حق حاصل ہے جبکہ اسلام نے ماں کے قدموں میں جنت رکھ کر بیٹی کو اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیتے ہوئے اس کے تمام حقوق کی نہ صرف ضمانت دی ہے بلکہ مردوں کو ان سے حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے۔
حسنِ سلوک کا مطلب حق سے زیادہ ادائیگی ہے اور یہاں افسوس کا مقام یہ ہے کہ خواتین کو ان کے بنیادی حقوق سے ہی محروم کردیا جاتا ہے۔دنیا بھر کے ممالک میں نافذ حکومتوں کو شہریوں میں خواتین کے تحفظِ حقوق پر شعور اجاگر کرنا ہوگا جبکہ عالمِ انسانیت کو خواتین کے حقوق کے تحفظ کیلئے قانون سازی کے ساتھ ساتھ عملدرآمد پر بھی توجہ دینا ہوگی۔