کراچی کی علیشہ نے شہر کی سڑکوں پر رکشہ دوڑا دیا، عزم و ہمت کی داستان رقم

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ملاقات: نگاہ محمد
مہمان: علیشہ جمیل

دنیا میں وہی لوگ کچھ کر گزرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں، جو ہر طرح کے حالات میں اپنا حوصلہ اور ہمت برقرار رکھتے ہیں اور حالات کے جبر کو اپنی کمزوری بنا کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھتے۔

ہمارے ارد گرد طرح طرح کے حالات میں گرفتار افراد موجود ہوتے ہیں، کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا کردار باقی سب کیلئے مشعل راہ ہوتا ہے اور اس سے دوسروں کو بھی انسپائریشن ملتی ہے۔

ہم نے آج کراچی کی ایسی ہی ایک لڑکی سے ملاقات کی ہے، جو ہمت، حوصلے اور طاقت میں ایک مثال بن کر ابھری ہے اور اس نے مردوں کے معاشرے میں عورت ذات ہو کر بھی مردوں والا مشکل چن کر دکھا دیا ہے کہ ہمت کرے انساں تو کیا ہو نہیں سکتا!

آئیے ملتے ہیں کراچی کی باہمت لڑکی علیشہ سے، علیشہ کی بہادری صرف یہ نہیں کہ وہ بھی مردوں کی طرح کراچی کی سڑکوں پر رکشا دوڑاتی ہیں۔

بسا اوقات آزمائشیں اور اچانک پڑنے والی افتاد انسان کو طاقت فراہم کرتی ہے۔ گھر میں پانچ دیگر بہنوں اور بیوہ ماں کے ساتھ رہنے والی علیشہ کا کوئی بھائی نہیں ہے۔ علیشہ کے خاندان کی آزمائش اور سخت دن اس وقت شروع ہوئے جب ان کے والد اچانک بیمار پڑ گئے۔

والد کی بیماری نے ایسا طول کھینچا کہ وہ بستر کے ہو کر رہ گئے۔ گھر کی جمع پونجی سب بیمار باپ کے علاج اور دیگر اخراجات پر ختم ہوگئی، مگر آزمائش ختم نہیں ہوئی۔ یہاں تک کہ باپ کے علاج اور زندگی کے دیگر اخراجات نے گھر بکوا دیا۔ جب سب ختم ہوا تو ادھر باپ کی زندگی بھی ختم ہوگئی اور علیشہ پانچ بہنوں اور ماں کے ساتھ گویا فٹ پاتھ پر آگئی۔

باپ کی بیماری کے دنوں میں علیشہ نے اخراجات کے سیلاب کا مقابلہ کرنے کیلئے رکشا چلانے کا فیصلہ کیا اور رکشا لے کر سڑک پر آگئی۔  بیمار سہی باپ کی زندگی کا سہارا تو تھا، سو اس برائے نام سہارے پر بھی وہ کراچی بھر میں بے خوف ہو کر رکشا دوڑانے اور محنت مزدوری سے تھوڑا بہت پیسے کمانے لگی۔ یوں علیشہ نے گھر والوں کوشدید مشکل وقت میں بیٹا اور کمانے والا مرد نہ ہونے کا احساس نہ ہونے دیا اور ہمت اور حوصلے کی مثال بن گئی۔

علیشہ بتاتی ہیں کہ باپ کے انتقال کے بعد اس نے گھر سے زیادہ دور رکشا لے کر جانا چھوڑ دیا ہے اور اب وہ اپنے علاقے اور آس پاس ہی رکشا چلانے کو ترجیح دیتی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں علیشہ نے بتایا کہ معاشرے میں جیسا کہ سبھی جانتے ہیں برے لوگ بھی بہت ہیں اور وہ عورت کو کسی بھی ایسے کام میں جس میں وہ نمایاں ہو، عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں اور کچھ لوگ ستانے سے بھی باز نہیں آتے، مگر علیشہ اللہ کا شکر ادا کرتی ہیں کہ اس کے ساتھ اس حوالے سے کچھ برا نہیں ہوا ہے اور لوگوں نے زیادہ تر اس کے ساتھ تعاون ہی کیا ہے۔

علیشہ نے بتایا کہ والد کی موت کے ساتھ جب سب کچھ ختم ہوگیا تو وہ کرائے کے گھر میں منتقل ہوگئے اور پندرہ ہزار ماہانہ کرائے پر مکان لے کر اس میں مقیم ہیں اور جیسے تیسے زندگی کی گاڑی کو دھکا دے رہی ہیں۔

علیشہ جو اپنی بہنوں میں سب سے چھوٹی ہیں، نے بتایا کہ وہ رکشے میں عموما خواتین اور لڑکیاں ہی بٹھاتی ہیں، مگر کوئی فیملی مل جائے تو اسے بھی سروس فراہم کرتی ہیں، تاہم اکیلے مردوں کو نہیں بٹھاتیں۔

علیشہ نے بتایا کہ ان کی کہانی وائرل ہونے کے بعد ادھر ادھر سے فون تو بہت آتے ہیں، مگر عملا کسی نے اب تک ان کی کوئی مدد نہیں کی۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں رکشا چلانے میں دقت پیش آتی ہے، بالخصوص رکشے میں جب کوئی کام نکلتا ہے تو مشکل دو چند ہوجاتی ہے، انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ انہیں گاڑی مل جائے تو ان کی مشکل آسان ہو سکتی ہے۔

ہم نے جب علیشہ سے نوجوان لڑکیوں کیلئے پیغام پوچھا تو علیشہ نے اپنی چھوٹی سی عمر کے بڑے اور تلخ تجربات کا نچوڑ بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ پیش کرتے ہوئے بہت خوبصورت بات کی۔ علیشہ نے کہا کہ میرا پیغام یہی ہے جن گھروں میں بیٹے نہیں ہیں، ان کی بیٹیاں بیٹا بن کر بیٹوں کی کمی پوری کریں اور ہمیشہ خود کو مضبوط کریں۔

بلاشبہ علیشہ جیسی با ہمت بیٹیاں ہمارے معاشرے کی طاقت ہیں۔ اپنی بیٹیوں کو مضبوط بنائیں، انہیں اعتماد دیں اور ہر طرح کے حالات سے لڑنے کا شعور دیں، کیونکہ ایک مضبوط عورت مستحکم قوم کی پرورش کرتی ہے۔

Related Posts