کراچی:وفاقی اُردو یونیورسٹی کے متنازعہ ترین سلیکشن بورڈ کے حوالے سے ایک اور مسئلہ سامنے آگیاہے،مخصوص اُمیدواران کو ان کا نتیجہ بتا کر ان سے مقدمہ کے نام پر پیسے وصول کیے گئے، ان امیدواران نے اب سلیکشن بورڈ کے بعد معاملات معمول پر آنے کے بعد پیسے واپس کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر زرینہ جو کہ بغیر کسی دفتری حکم کے بحیثیت سیکریٹری سلیکشن بورڈ فرائض انجام دیتی رہیں، ان کے اس حوالے سے کردار پر سوالات اٹھ گئے ہیں، وفاقی اُردو یونیورسٹی کے اسی سال منعقد ہونے والے سلیکشن بورڈ جو کہ 2013ء اور 2017ء کے مختلف اشتہارات کے تحت کروایا گیا تھا اور مختلف تنازعات، الزامات اور عدالتی مقدمات کی وجہ سے اب تک مکمل نہیں ہو سکا۔ اس سلیکشن بورڈ کے خلاف تنازعات کے سامنے آنے کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
اطلاعات کے مطابق حالیہ تنازعہ یہ سامنے آیا ہے کہ اس سلیکشن بورڈ کے خلاف لیکچرار کے 3امیدواروں نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے اور عدالت نے اس سلیکشن بورڈ پر حکم امتناع جاری کیا تو ٹیسٹ اور انٹرویو میں کلیئر ہونے والے امیدواروں سے رابطے کیے گئے اور انہیں بتایا گیا کہ تمام امیداور اس مقدمے میں فریق بننے کے لیے امتناع کے خلاف درخواست دیں گے،جس کے لیے ان تمام امیدواروں کو خفیہ رکھے گئے نتائج میں ان کے کلیئر ہونے کی گارنٹی دے کر ان سے دس ہزار فی امیدوار وصول کیے گئے ہیں ۔
تقریباً کل 10 لاکھ سے زائد کی یہ رقم پروفیسر ڈاکٹر زرینہ علی اور لیکچرار سید اقبال حسین نقوی کے ذریعہ جمع کی گئی ہے۔ بعدازاں یونیورسٹی نے بحیثیت فریق اپنے ماہانہ ڈیڑھ لاکھ روپے تنخواہ پر بھرتی کیے گئے وکیل کی جگہ کسی دوسرے وکیل کی خدمات حاصل کیں اور عدالت عالیہ نے حکمِ امتناع ختم کردیا۔ اسی دوران دس ہزار روپے دینے والے کئی امیدواروں نے سوالات اٹھائے کہ اگر ہمیں فریق بنانے اور الگ سے وکیل کی خدمات حاصل کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی تو ہم سے وصول کیے گئے پیسے واپس کردینے چاہئیں۔
گزشتہ 2دنوں میں یہ مطالبہ زور پکڑ گیا ہے اور پیسے دینے والے اساتذہ و امیدواروں نے پیسے واپس کرنے کا مطالبہ کردیا ہے۔ اس حوالے سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں جن میں سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ قانون کے مطابق سلیکشن بورڈ کے نتائج اس وقت تک افشاع نہیں کیے جاسکتے جب تک اس کی منظوری سینٹ سے نہ دے دی جائے تو ڈاکٹر زرینہ علی اور سید اقبال حسین نقوی کو یہ خفیہ اور انتہائی حساس معلومات کس نے مہیا کیں تاکہ وہ صرف متعلقہ اور کلیئر ہونے والے امیداوران سے ہی پیسے طلب کریں؟۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر زرینہ علی سلیکشن بورڈ کے تمام مراحل میں بحیثیت سیکریٹری فرائض انجام دیتی رہیں تو ان کا اس حیثیت سے کام کرنے کا دفتری حکم اب تک سامنے کیوں نہیں آیا؟ کیا ایسا کوئی خط جاری بھی ہوا تھا؟ خدشہ ہے کہ پیسے واپس مانگنے کے مطالبے نے زور پکڑا تو کہیں یہ امیدوار اپنے پیسوں کی واپسی کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رجوع نہ کرلیں۔اس حوالے سے ڈاکٹر زرینہ سے رابطہ کیا گیا تاہم انہوں نے فون ریسیو نہیں کیا۔
مزید پڑھیں: داؤد یونیورسٹی میں غیر قانونی بھرتیوں پر اینٹی کرپشن کے ذریعے پردہ ڈالنے کی تیاری