مئی میں جب سے افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں کا انخلا شروع ہوا ہے، طالبان نے ایک بھرپور مہم چلائی ہے اور ملک کے بیشتر حصے پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔
پچھلے چھ دنوں کے دوران، باغیوں نے ملک بھر میں نو صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کر لیا ہے، ان میں سے بیشتر شمال میں جڑے ہوئے ہیں، ان کی جارحیت میں ایک بڑا اضافہ دیکھنے کو ملا ہے جو افغان حکومت کے لیے تباہ کن دھچکا ہے۔
دریں اثنا، افغانستان کی حکومت نے ملک میں تباہی کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ افغان حکام کا خیال ہے کہ پاکستان کی مدد کے بغیر طالبان ممکنہ طور پر افغانستان پر قبضہ نہیں کر سکتے۔
افغان صدر اشرف غنی نے حالیہ کچھ دنوں کے دوران کابل اور اسلام آباد کے مابین لفظی جنگ شروع کرنے کا انتخاب کیا جب کہ اس کے برعکس پاکستان نے افغان تنازع میں منفی کردار ادا کیا ہے۔
طالبان کن علاقوں پر کنٹرول رکھتے ہیں؟
نیو یارک ٹائمز کے مطابق جب سے طالبان نے مئی میں اپنی فوجی کارروائی شروع کی ہے، باغیوں نے افغانستان کے 400 اضلاع میں سے نصف سے زیادہ پر قبضہ کر لیا ہے۔
حالیہ ہفتوں میں، افغانستان کے بیشتر دیہی علاقوں میں قبضے کے بعد باغیوں نے 20 سالہ جنگ میں پہلی بار بیک وقت متعدد صوبائی دارالحکومتوں کا محاصرہ شروع کر دیا ہے۔
افغان سیکورٹی فورسز کی جانب سے معمولی مزاحمت کا سامنا کرنے کے بعد طالبان نے ایران کی سرحد کے قریب صوبائی دارالحکومت پر قبضہ کر لیا۔ ایک دن بعد، انہوں نے ایک اور دارالحکومت، شبرغن پر قبضہ کر لیا، جو جنگجو مارشل عبدالرشید دوستم کا شمالی گڑھ ہے۔
اتوار کو طالبان نے مزید تین شمالی دارالحکومتوں پر قبضہ کر لیا۔ انہوں نے صوبہ تخار کے دارالحکومت تالقان اور سر پل پر قبضہ کر لیا۔ انہوں نے قندوز پر بھی قبضہ کر لیا، جو آج تک قبضہ کیا گیا سب سے بڑا شہر اور ایک اہم تجارتی مرکز ہے۔
طالبان نے سوموار کو صوبہ سمنگان کے دارالحکومت ایبک پر قبضہ کرتے ہوئے اپنی مہم جاری رکھی۔ پھر منگل کو باغیوں نے مزید تین دارالحکومتوں پر قبضہ کر لیا: فرح، پل خمری اور فیض آباد جبکہ آج (جمعرات) کو طالبان نے اسٹریٹجک افغان شہر غزنی میں پہنچ چکے ہیں جو کابل سے صرف 150 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
افغان الزامات اور پاکستان کا کردار
کچھ افغان رہنما ء پڑوسی ملک پاکستان کو طالبان حاصل ہونے والے فائدے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ یہاں تک کہ افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان پر الزام لگاتے ہوئے الزام لگایا کہ پاکستان افغانستان میں امن کی حمایت نہیں کر رہا۔
تاہم، پاکستان پر مسلسل الزام تراشی کی یہ کوشش نہ صرف دستیاب شواہد کے برعکس ہے بلکہ ایک گمراہ کن داستان بھی پیش کرتی ہے جو خود افغان حکومت کی ناکامیوں کو چھپانے کی ایک ناکام کوشش ہے۔
طالبان با آسانی ملک کے دیگر اضلاع پر بھی قابض ہوتے جارہے ہیں، مکمل طاقت پر انحصار کرنے کے بجائے، طالبان تیزی سے اور باقاعدگی سے مقامی سیاسی معاہدوں کے ذریعے مزید علاقوں پر قبضہ کر رہے ہیں،جن پر پاکستان کا کوئی ممکنہ کنٹرول نہیں ہے۔
دراصل پاکستان افغان نیشنل آرمی کی مدد کرتا رہا ہے۔ درجنوں افغان فوجی طالبان کے حملوں سے بچنے کے لیے سرحد پار کر کے پاکستان میں داخل ہوئے ہیں۔ ہر بار پاکستان نے افغان فوجیوں کو پناہ دی ہے اور انہیں عزت اور وقار کے ساتھ افغان حکام کو واپس کر دیا ہے۔
افغانستان پاکستان پر الزام کیوں لگا رہا ہے؟
پاکستان کو طالبان کے پیچھے طاقت کے طور پر مورد الزام ٹھہرانا افغان حکومت کی نا اہلی اور غلطیوں کی ذمہ داری کے بوجھ کو دور کرنے کا ایک مفید ذریعہ ہے۔
پاکستان، افغان حکومت کی طرف سے دکھائی گئی دشمنی کے باوجود، افغانستان میں امن کی کوششوں کو فروغ دینے کے لیے تیار ہے۔ جیسا کہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے، ”وہ ملک جو افغانستان میں ہنگاموں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ہے وہ پاکستان ہے”، لہٰذا طویل مدتی امن کے لیے مذاکرات کے سیاسی حل کے لیے ابھی بھی راستہ کھلا ہے۔