80گز کا پلاٹ نہیں نقصان کے حساب سے معاوضہ دیا جائے، کراچی بچاؤ تحریک

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

80گز کا پلاٹ نہیں نقصان کے حساب سے معاوضہ دیا جائے، کراچی بچاؤ تحریک
80گز کا پلاٹ نہیں نقصان کے حساب سے معاوضہ دیا جائے، کراچی بچاؤ تحریک

کراچی بچاؤ تحریک کے عہدیداران کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے جب سندھ حکومت کو نالوں کے اوپر سے تجاوزات ہٹانے کا حکم دیا تو کے ایم سی نے نالوں کو چوڑا کرنے اور نالوں کے دونوں اطراف تیس تیس فٹ چوڑی سڑک بنانے کا بھی پلان تیار کر لیا جو کراچی کے کسی ماسٹر پلان کا حصہ نہیں۔ اس وقت گجر و اورنگی نالے پر جتنے گھر گرائے جارہے ہیں ان میں سے کوئی بھی نالے پر واقع نہیں ہے بلکہ اس روڈ کی تعمیر کی وجہ سے گرائے جا رہے ہیں۔

کراچی بچاؤ تحریک کے عہدیداران کا کہنا ہے کہ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو ان تعمیرات کی مسماری کو سپریم کورٹ کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں انہوں نے سندھ حکومت سے یہ کیوں نہیں پوچھا کہ کے ایم سی کے افسران نے عدالت میں یہ بیان کیوں دیا کہ یہ ساری لیزیں غلط جاری کی گئیں تھیں جبکہ ان ہی فسران نے یہ لیزیں جاری کی تھیں جو آج ان مکانات کو توڑ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اگر وزیر تعلیم سعید غنی صاحب کے حلقے محمودآباد میں سڑک کی چوڑائی کو 12 فٹ تک محدود کیا جا سکتا ہے تو اورنگی و گجر نالے میں کیوں نہیں؟ ہم سمیت شہر کے تمام ماہرین بشمول عارف حسن صاحب اور ڈاکٹر نوشین انور یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سڑک ایک طرف تو کراچی کے ماسٹر پلان کا کبھی حصہ نہیں  رہی اور دوسری جانب سوا منافع کمانے والی تعمیراتی کمپنیوں اور رئیل اسٹیٹ مافیا کے اس سے شہریوں کو کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں پہنچ سکتا ہے لہٰذا ان سڑکوں کو 10 فٹ اور نالے کی چوڑائی کو موجودہ چوڑائی تک محدود رکھ کر جتنے بھی گھر بچائے جا سکتے ہیں اور جن کے مکانات اس سڑک کی وجہ سے ٹوٹے ہیں ان کو واپس یہیں آباد کیا جا سکتا ہے انہیں یہیں آباد کیا جائے۔

کراچی بچاؤ تحریک کے عہدیداران کا مزید کہنا تھا کہ ان ساری باتوں کے باوجود ہم بلاول صاحب کی نیت پر شک کئے بغیر ان کو اور سندھ حکومت کو حقیقی صورت حال سمجھانا چاہتے ہیں تاکہ وہ ہمارے  جائز مطالبات کو تسلیم کریں لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ کوئی بھی متبادل منصوبہ یا اس مسئلے کا حل تجویز کرنے سے پہلے سندھ حکومت متاثرین سے رابطہ کرے اور ان کو جس کمیشن کا اعلان کیا گیا ہے اس میں شامل کرے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ متاثرین سے مکمل مشاورت کے بعد ہی ایک ایسا منصوبہ تیار کیا جا سکتا ہے جو واقعی اتنے بڑے انسانی المیے کا کچھ ازالہ کر سکے جس سے قریب ایک لاکھ لوگ متاثر ہو رہے ہیں اور اکیس ہزار سے زائد بچے بے گھر ہو گئے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ اس کمیشن میں حاجی لیموں گوٹھ، صحافی کالونی، الادین پارک اور کے سی آر متاثرین کو بھی شامل کیا جائے اور ان کو بھی ان کے نقصان کے حساب سے متبادل و معاوضہ فراہم کیا جائے۔

یہاں ہم یہ بھی بتاتے چلیں کہ اقوام متحدہ نے کراچی بچاؤ تحریک کی شکایات کی روشنی میں ایک بہت اہم بیان جاری کیا تھا جس میں حکومت کو یہ کہا گیا تھا کہ ان مسماریوں کی وجہ سے انسانی المیہ جنم لے رہا ہے اور فوری طور پر اس عمل کو روکنے کی ضرورت ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ اس عمل کو روکنا تو دور کی بات اس وقت بھی بغیر نوٹس اور گھر خالی کرنے کا وقت دیئے کوئی معاوضہ یا متبادل فراہم کئے کے ایم سی اپنے عملے، پولیس اور رینجرز کی مدد سے چادر و چاردیواری کا تقدس پامال کر کے خواتین و بچوں سمیت ہر طرح کے لوگوں کو زدو کوب کر کے اس طرح ان کے گھروں سے محروم کر رہی ہے کہ جیسے وہ دوسرے درجے کے شہری ہوں۔

ہم نہیں چاہتے کہ نسلہ ٹاور سمیت کسی کے ساتھ بھی اس طرح کا سلوک روا رکھا جائے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس ہی سپریم کورٹ کے آرڈر پر فوری طور پر عمل کرتے ہوئے گجر و اورنگی نالہ حاجی لیموں گوٹھ اور الا دین پارک کے پاس لوگوں کے گھر توڑے جا رہے ہیں لیکن نسلہ ٹاور کے معاملے میں بڑے بلڈرز شامل ہیں تو حکومت بھی اس کو گرانے کی کوشش نہیں کر رہی اور باقی مسماریوں پر خاموش سیاسی پارٹیاں بھی وہاں پہنچ رہی ہیں۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر امیروں کے گھروں کو بغیر متبادل دئیے مسماری سے روکا جا سکتا ہے تو محنت کش آبادی پر بھی مسماری کا سلسلہ فوری طور پر روکیں۔

اس ہی کے ساتھ ساتھ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے تحت حکومت تمام مسمار ہونے والے مکانات کو بلاتفریق لیز متبادل فراہم کرنے کی پابند ہے لہٰذا حکومت سندھ کو اس میں فرق نہیں کرنا چاہئے اور اس ہی طرح کسی کا 240 گز کا مکان گیا ہے تو کسی کا 500 گز کا لہٰذا 80 گز کے مکان کے بجائے جس کا جتنا مکان ٹوٹا ہے اس کو اس کے حساب سے پلاٹس دئیے جائیں۔ اس کے علاوہ کے ایم سی کے سروے اور آئی ڈیز میں بہت مسئلہ ہے جس میں چار منزلہ مکان اور ایک منزلہ مکان میں بھی کوئی فرق نہیں کیا گیا اور چار خاندانوں اور ایک خاندان میں بھی کوئی فرق نہیں کیا گیا جبکہ سارا سروے محض ایک ڈرون کے ذریعے کیا گیا ہے۔ اس ہی طرح چیکس کی تقسیم سے لے کر زیادہ نشانات لگانے اور دیگر طرح سے گھپلے کرکے کرپشن کا بازار گرم ہے اور آدھے سے زیادہ لوگوں کے مکانات ٹوٹنے کے باوجود ان کو کرائے کی مد میں 90 ہزار کا چیک بھی نہیں ملا ہے۔  ہم سمجھتے ہیں کہ متاثرین کے لئے ٹیکنکل ٹریننگ ریسورس سینٹر کی جانب سے کئے جانے والے تفصیلی سروے کے آنے تک گھر نہ توڑے جائیں اور جو گھر توڑ دئیے گئے ہیں ان میں فی خاندان  کم سے کم تیس ہزار روپے مہینہ کے حساب سے متبادل ملنے تک 2 سال کے کرائے کی مد میں سات لاکھ بیس ہزار روپے دئیے جائیں اور جلد سے جلد ان کے گھر یا تو اس ہی مقام پر یا قریبی مقام پر بنوا کر انہیں باعزت زندگی گزارنے کا موقع فراہم کیا جائے۔

کراچی بچاؤ تحریک اور متاثرین حکومت سندھ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ گجر اور نگی نالہ، کے سی آر، الادین پارک، حاجی مرید گوٹھ و صحافی کالونی سمیت تمام متاثرین کو اس وقت جاری مسماریاں روک کر متبادل گھروں کے حوالے سے سندھ حکومت کے اعلان کردہ کمیشن کا حصہ بنایا جائے۔

نالوں کی چوڑائی جتنی ہے اتنی رکھتے ہوئے محمودآباد کے طرز پر تیس فٹ سڑک کی جگہ سڑک کو دس فٹ تک محدود کر کے گھروں کو بچایا اور لوگوں کو ان کی زمین پر دوبارہ بسایا جائے۔ 80 گز کے پلاٹس کی جگہ باقائدہ جس کا جتنا نقصان ہوا ہے اس کو اس ہی حساب سے زمین اور تعمیر کا معاوضہ فراہم کیا جائے۔جس ضلع کے لوگ متاثر ہوئے ہیں انہیں اس ہی ضلع میں زمین فراہم کی جائے۔ متبادل رہائش کا انتظام آئی ڈیز کے بجائے گھرانوں کی بنیاد پر کیا جائے۔30 فیصد والی شرط کو ختم کر کے تمام متاثرین کو متبادل فراہم کیا جائے۔

لوگوں کو متبادل رہائش کا پلان اور تیس ہزار مہینہ کے حساب سے دو سال کے کرائے کی مد میں سات لاکھ بیس ہزار کی رقم ملنے تک مسماریوں کے سلسلے کو روکا جائے۔ حکومت نالوں کی صفائی، سڑک  کی تعمیراور متبادل رہائش  سمیت جو بھی منصوبہ سازی کر رہی ہے اسے عوام کے سامنے پیش کرے تاکہ یہ سارا عمل شفاف رہے۔ آئی ڈیز کی تقسیم سے چیکس کی تقسیم تک سارے عمل کا تیسری پارٹی سے آڈٹ کرایا جائے تاکہ اس میں موجود کرپشن کا خاتمہ ہو سکے۔

سندھ حکومت کے زمین فراہم کرنے کے اعلان کا ہم خیر مقدم کرتے ہوئے اپنے مطالبات ان کے سامنے اس لئے رکھ رہے ہیں کہ ان کے بغیر ان کا سارا عمل متاثرین کے لئے رائیگاں ہوگا لیکن ہم ساتھ ساتھ وفاقی حکومت سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر سندھ حکومت زمین فراہم کر رہی ہے تو وہ اس زمین پر گھر تعمیر کرنے کے لئے معاوضے کا اعلان کرے۔ اگر ہمارے یہ جائز مطالبات تسلیم نہیں کئے جاتے اور کراچی کے تمام متاثرین کو ان کا جائز حق نہیں ملتا تو بلاول ہاؤس و گورنر ہاؤس سمیت یہ متاثرین کہیں بھی احتجاج و دھرنا دینے میں حق بجانب ہوں گے۔ ہم تمام صحافی خواتین و حضرات سے گزارش کرتے ہیں کہ آپ نے ہماری آواز عوام اور حکام بالا تک پہنچانے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے اور امید رکھتے ہیں کہ آپ اس ہی طرح حق اور سچ کا ساتھ دیتے رہیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: مفتی کفایت اللہ کی ڈھائی ماہ بعد ضمانت منظور، رہائی کل ہو گی

Related Posts