راولپنڈی میں گلگت بلتستان کے شہری پر پولیس نے وحشیانہ تشدد کیا اور مبینہ طور پر جھوٹا مقدمہ درج کرکے جیل منتقل کردیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق گلگت بلتستان کے ضلع غذر سے تعلق رکھنے والے پرائیویٹ کمپنی کے ملازم کو پیرودھائی پولیس نے تھانے میں وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔ پولیس اہلکاروں نے شہری کے پاس موجود 50 ہزار روپے کی رقم ، اے ٹی ایم کارڈ اور کارڈ کا کوڈ بھی زبردستی لے لیا۔
بعد ازاں پولیس اہلکاروں نے اس بے گناہ شہری پر چوری کا جھوٹا مقدمہ قائم کرکے اڈیالہ جیل منتقل کردیا جو 7 ماہ بعد ملازمت سے چھٹی لے کر اپنے بچوں سے ملنے کیلئے گھر جا رہا تھا۔ پولیس گردی کا نشانہ بننے والے شہری کی تلاش میں اس کے ورثاء گلگت سے راولپنڈی پہنچ گئے جنہیں 8 روز بعد اصل صورتحال کا علم ہوا۔
متاثرہ شہری کے بھائی نے سی پی او راولپنڈی کو تحریری درخواست دیتے ہوئے انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔غذر کے رہائشی خوش محمد خان نے درخواست میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ محمد پناہ چینی کمپنی سی جی جی سی میں مہمند ڈیم کی سائٹ پر ملازمت کرتا ہے۔ جو 6 اکتوبر 2020ء سے سائٹ پر ہی موجود رہا۔
خوش محمد خان کے مطابق محمد پناہ مسلسل 7 ماہ سے کمپنی میں رہ رہا تھا جو چھٹی پر جانے کیلئے 8 اپریل کی رات 12 بج کر 12 منٹ پر پیر ودھائی اڈے پر پہنچا۔ لیٹ پہنچنے پر گاڑی نکل چکی تھی۔ رات بسر کرنے کیلئے محمد پناہ تھری اسٹار ہوٹل پیر ودھائی پہنچ گیا جس کے بعد رشتہ داروں کا اس سے رابطہ منقطع ہوا۔
دو تین روز تک محمد پناہ کا انتظار کرنے والے بھائی خوش محمد خان نے تشویش ہونے پر 13 اپریل کی شام کو بھائی کی تلاش میں راولپنڈی جانے کیلئے گلگت سے سفر شروع کیا جو 14 اپریل کی صبح پیر ودھائی پہنچ گیا۔ تھری اسٹار ہوٹل سے پتہ کیا تو منیجر نے بتایا کہ محمد پناہ 9 اپریل کو رات پونے دس بجے ہوٹل سے نکل گیا تھا۔
پریشان حال محمد پناہ کے بھائی کا کہنا ہے کہ میں 14اپریل کو تھانہ پیرودھائی گیا اور پولیس کو بھائی کی گمشدگی کیلئے درخواست دی۔ پولیس نے رپورٹ درج کر لی اور پھر ہم رشتہ داروں کے ہمراہ محمد پناہ کو تلاش کرتے رہے۔ تھانے کے بھی متعدد چکر لگائے گئے لیکن کچھ پتہ نہ چلا۔ 16 اپریل کو ایک شخص نے فون کرکے بتایا کہ آپ کا بھائی اڈیالہ جیل میں ہے۔
بعد ازاں 17 اپریل کو محمد پناہ کے بھائی نے اڈیالہ جیل جا کر اس سے ملاقات کی۔ محمد پناہ نے کہا کہ مجھے 9 اپریل کو ہوٹل سے پیر ودھائی پولیس نے حراست میں لیا جب میرے پاس 50 ہزار روپے نقد اور اے ٹی ایم کارڈ موجود تھا۔ پولیس نے بے پناہ تشدد کیا۔ رقم اور اے ٹی ایم کارڈ چھین کر کوڈ لے لیا۔
لوٹ مار پر پردہ ڈالنے کیلئے پولیس نے گزشتہ برس 25 دسمبر کو درج کی گئی ایک گمنام ایف آئی آر میں مجھے ملوث کردیا۔ درخواست کے مطابق محمد پناہ 6 اکتوبر سے 8 اپریل تک مہمند ڈیم پراجیکٹ کی سائٹ سے باہر نہیں نکلا جس کی تصدیق کمپنی کے پراجیکٹ منیجر سے حاصل کی جاسکتی ہے جبکہ ایف آئی آر دسمبر 2020ء کی ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ پولیس اہلکاروں نے میرے بھائی پر بہیمانہ تشدد کیا، رقم لوٹی اور جھوٹے مقدمے میں ملوث کرکے بے بنیاد ریکوری بھی ڈالی ہوئی ہے۔ براہِ کرم میرے بھائی پر قائم جھوٹا مقدمہ ختم کیا جائے، قید سے رہائی دلائی جائے اور ہمارے ساتھ انصاف کیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: بلدیہ عظمیٰ کراچی میں کرپشن ، ایف آئی اے نے4 افسران کو طلب کرلیا