قرآنِ پاک اللہ تعالیٰ کی آخری الہامی کتاب ہے جبکہ سنتِ نبوی یا حدیثِ رسول سے مراد حضورِ اکرم ﷺ کا قول و فعل ہے۔ رحمت اللعالمین ﷺ نے جس بات کا حکم دیا، جس سے منع فرمایا یا جس قول و فعل پر خاموشی اختیار فرمائی، یہ تمام افعال حدیث اور سنت کہلاتے ہیں۔
اسلامی سال محرم الحرام سے شروع ہوتا ہے جس میں شعبان المعظم آٹھواں مہینہ ہے اور شبِ برات کو نصف شعبان کی رات کہا جاتا ہے جس کی اہمیت قرآن و سنت سے ثابت ہے۔ آئیے شبِ برات کی فضیلت و اہمیت سے متعلق مختلف روایات کا جائزہ لیتے ہیں۔
شبِ برات کی فضیلت اور اہمیت
ابنِ ماجہ کے مطابق ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبئ آخر الزمان ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ خیر کو چار راتوں میں خوب اضافہ عطا فرماتا ہے جن میں عید الاضحیٰ کی رات، عید الفطر کی رات، شعبان کی پندرہویں رات اور نویں ذی الحجہ کی رات شامل ہیں۔ تمام راتوں میں صبح کی اذان تک خیر و برکت نازل ہوتی رہتی ہے۔
طبرانی و بیہقی کے مطابق حضرت معاذ ابنِ جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ شعبان کی 15ویں شب کے دوران اللہ تعالیٰ اپنی تمام مخلوق کی طرف توجہ فرماتا ہے اور تمام مخلوق کی مغفرت فرماتا ہے سوائے مشرکین اور کینہ رکھنے والوں کے۔
معمولاتِ شبِ برات
رسولِ اکرم ﷺ شبِ برات کے دوران قبرستان میں جا کر امتِ مسلمہ کیلئے مغفرت کی دعا کرتے تھے اور گھر لوٹ کر نوافل ادا فرماتے تھے۔ سجدے میں دعا فرماتے کہ یا اللہ میں تیری ناراضی سے تیری رضامندی کی پناہ مانگتا ہوں، تیری ذات بزرگ و برتر ہے۔
مسلمانوں کو شبِ برات میں بے جا بدعات اور رسومات کی بجائے سنتِ رسول ﷺ کی پیروی کرنی چاہئے، نوافل ادا کرنا، صلوٰۃ التسبیح پڑھنا، روزہ رکھنا، ذکرِ الٰہی کرنا اور دعا و استغفار کرنا شبِ برات کے اہم معمولات میں سے ہیں۔
مفتی شفیع اوکاڑوی نے رسالۂ شبِ برات میں تحریر کیا کہ صحابہ کرام اور تابعینِ اطہار شبِ برات کے دوران شب بیداری کا اہتمام کیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ شبِ برات کے دیگر معمولات میں قرآن و حدیث کی تلاوت، حمد و ثناء اور درود شریف کا ورد شامل ہے۔
اہم خصوصیات
بہت سی ایسی احادیث ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ شبِ برات کے دوران انسانوں کے اعمال اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیے جاتے ہیں اور اسی رات سال بھر کی اموات اور حیات کا فیصلہ ہوتا ہے، رزق کی تقسیم اور دعا کی قبولیت سے متعلق بھی اس رات کی اہمیت ثابت ہے۔
اگر ہم قرآنِ پاک میں شبِ نصف شعبان کا ذکر تلاش کریں تو سورۂ دخان کی آیت نمبر 4 میں آتا ہے کہ اس رات میں ہر فیصلہ شدہ معاملہ بانٹ دیا جاتا ہے جس کی بعض تفاسیر سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شبِ برات کا ذکر فرمایا، تاہم زیادہ تر تفاسیر میں اس سے شبِ قدر مراد ہے۔
علامہ زمخشری کا کہنا ہے کہ شبِ برات کے 4 نام ہیں جن میں لیلۃ المبارک یعنی برکت کی رات، لیلۃ البراۃ یعنی عہدہ برآ ہونے کی رات اور لیلۃ الرحمۃ یعنی رحمت کی رات شامل ہیں۔
یہاں شبِ برات کی 5 اہم خصوصیات کا ذکر ضروری ہے جو علامہ زمخشری نے الکشاف للزمخشری میں بیان کیے جن میں عبادت کی فضیلت، فیصلہ شدہ معاملات کی تقسیم، نزولِ رحمت و برکت اور عطائے شفاعت کے ساتھ ساتھ زمزم کے پانی میں اضافہ شامل ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ 5 راتیں ایسی ہیں جن میں دعائیں قبول ہوتی ہیں اور نصف شعبان کی رات ان میں شامل ہے (السنن الکبریٰ للبیہقی)
زیارتِ قبور اور شبِ برات
دینِ اسلام میں شبِ برات کے دوران قبروں کی زیارت کیلئے جانا، استغفار کرنا اور مرحومین کیلئے فاتحہ خوانی ایک اہم روایت سمجھی جاتی ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ ایک رات میں نے محسنِ انسانیت ﷺ کو (بسترپر) نہ پایا۔ میں حضور ﷺ کی تلاش میں نکل گئی۔ رسول اللہ ﷺ کی مجھ سے جنت البقیع میں ملاقات ہوئی۔
روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا سر آسمان کی طرف بلند تھا۔ مجھے دیکھ کر ارشاد فرمایا کہ اے عائشہ کیا تمہیں یہ اندیشہ تھا کہ اللہ اور اس کا رسول ﷺ تمہارے ساتھ زیادتی کریں گے؟
سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ نہیں۔ مجھے گمان ہوا تھا کہ آپ اپنی کسی زوجہ کے پاس چلے گئے ہوں گے۔ فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات (یعنی شبِ برات) کو آسمانِ دنیا پر اُتر کر قبیلۂ کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے بھی زیادہ لوگوں کی بخشش فرما دیتا ہے۔
موت و حیات کے فیصلے
بعض روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ نصف شعبان کی رات میں اللہ تعالیٰ سال بھر کے دوران مرنے اور جینے سے متعلق یعنی موت و حیات کے فیصلے فرماتا ہے۔
ابن ابی الدنیا نے عطاء بن یسار سے روایت کیا ہے کہ نصف شعبان کی رات کو موت کے فرشتے (حضرت عزرائیل علیہ السلام) کو ایک صحیفہ دے کر کہا جاتا ہے کہ جن لوگوں کے نام اس میں درج ہیں، ان کی روح قبض کر لو۔
مذکورہ روایت میں مزید درج ہے کہ بندے شادی کرتے ہیں اور گھر تعمیر کرنے میں لگے ہوتے ہیں جبکہ ان کے نام عزرائیل علیہ السلام کو دئیے گئے اس صحیفے میں درج ہوتے ہیں (یعنی اسی برس ان کا انتقال ہوجاتا ہے)۔
ضعیف احادیث اور شبِ برات کی حقیقت
مندرجہ بالا احادیث میں سے بعض پر علمائے کرام کا اتفاق نہیں اور وہ انہیں ضعیف بھی قرار دیتے ہیں تاہم شبِ برات کی اہمیت و فضیلت اور اس کے دوران عبادات اور ذکر اذکار کے اہتمام سے کسی طبقۂ فکر کو انکار نہیں ہوسکتا۔
یہ ایک بابرکت اور متبرک رات ہے جس کے دوران پٹاخے چلانا اور دیگر ہندووانہ رسوم کے اہتمام سے اجتناب ضروری ہے جو دینِ اسلام سے ثابت نہیں۔ شبِ برات کے دوران زیادہ سے زیادہ توبہ و استغفار کا اہتمام، قبور کی زیارت اور نوافل ادا کرنا ضروری ہے۔