وطنِ عزیز پاکستان میں کل سینیٹ انتخابات کا انعقاد عمل میں لایا جائے گا جبکہ سینیٹ نشست کیلئے سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی اور وزیرِ خزانہ حفیظ شیخ کے مابین سب سے بڑا اور دلچسپ ترین مقابلہ متوقع ہے۔
آئیے پیپلز پارٹی رہنما یوسف رضا گیلانی اور پی ٹی آئی امیدوار ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کے مابین سینیٹ کی ایک نشست کیلئے ہونے والے مقابلے کی اہمیت کا جائزہ لیتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا یہ نشست حکومت کا تختہ الٹ سکتی ہے؟
تکنیکی تفصیلات
موجودہ صورتحال یہ ہے کہ پی ٹی آئی اور اتحادی سیاسی جماعتوں کے پاس سینیٹ کی 181 نشستیں ہیں جبکہ اپوزیشن نشستوں پر 160 سینیٹرز براجمان ہیں۔ سینیٹ انتخابات میں اسلام آباد کی ایک جنرل اور ایک خاتون کی نشست پر الیکشن ہوگا۔
جنرل نشست پر وزیرِ خزانہ حفیظ شیخ اور اپوزیشن امیدوار یوسف رضا گیلانی مدِ مقابل ہیں۔ یوسف رضا گیلانی صرف پیپلز پارٹی کے نہیں بلکہ پی ڈی ایم کے متفقہ امیدوار ہیں اور پی ڈی ایم میں ن لیگ اور پی پی پی سمیت 11 سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔
خواتین کی نشست پر تحریکِ انصاف کی فوزیہ ارشد اور ن لیگ کی فرزانہ کوثر کا مقابلہ ہوگا۔ سینیٹ الیکشن میں قومی اسمبلی کے پولنگ اسٹیشن سے جو امیدوار زیادہ ووٹ حاصل کرے گا، اسے کامیاب قرار دیا جائے گا۔
قومی اسمبلی اراکین 341 ہیں، این اے 75 ڈسکہ کے ضمنی انتخاب کو دوبارہ کرائے جانے کے باعث یہ نشست تاحال خالی ہے۔ پارٹی پوزیشن یہ ہے کہ پی ٹی آئی 157، ق لیگ 5، ایم کیو ایم 7، جی ڈی اے 3، عوامی لیگ 1 جبکہ بی اے پی اور جمہوری وطن پارٹی 1،1 نشست رکھتے ہیں۔
اگر 2 آزاد امیدواروں کی بات کی جائے تو علی نواز شاہ اور اسلم بھوتانی حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں اور حکومت کی مجموعی سیٹس 181 بنتی ہے۔ اپوزیشن میں ن لیگ 83، پی پی پی 55، ایم ایم اے 15 اور اے این پی 1 نشست کی حامل ہے۔2 آزاد اور بی این پی کے 4 امیدوار ملا کر اپوزیشن اراکین 160 بنتے ہیں۔
یوسف گیلانی اور حفیظ شیخ کے مقابلے کی اہمیت
بظاہر یوسف رضا گیلانی ایک پیپلز پارٹی رہنما اور حفیظ شیخ پی ٹی آئی امیدوار اور وفاقی وزیر ہیں، تاہم سینیٹر کی اِس نشست کی اہمیت یہ ہے کہ اس کیلئے تمام ہی اراکینِ قومی اسمبلی ووٹ ڈالیں گے جس سے پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کے مابین حقیقی برتری کا فیصلہ ہوسکتا ہے۔
مثال کے طور پر یوسف رضا گیلانی یہ نشست جیتے تو مطلب یہ لیا جائے گا کہ اپوزیشن کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی اور شاید اتحادی جماعتوں کے اراکینِ اسمبلی نے بھی حکومت کی بجائے اپوزیشن کے امیدوار کو جتوانے کیلئے کردار ادا کیا اور اپنے ووٹ پی ٹی آئی کو دینے کی بجائے پی ڈی ایم کو عطا کردئیے۔
اخلاقاً اس کا یہ مطلب بھی لیا جائے گاکہ بطور وزیرِ اعظم عمران خان کو درکار مطلوبہ ووٹس اب کم رہ گئے ہیں۔ اس سے اپوزیشن اتحاد کا حوصلہ بڑھ جائے گا اور یہاں یہ بات ضروری سمجھی جاسکتی ہے کہ وزیرِ اعظم خود پارلیمان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کریں۔ دوسری صورت میں اپوزیشن تحریکِ عدم اعتماد لا کر حکومت کا تختہ الٹ سکتی ہے۔
صدارتی ریفرنس اور بلا مقابلہ جیت کا فارمولا
وفاقی حکومت سینیٹ انتخابات کے پیشِ نظر اِس شش و پنج میں تھی کہ قومی اسمبلی کے اراکین کو خریدنے والے کسی بھی وقت حکومت کیلئے مشکلات پیدا کرسکتے ہیں۔ اس لیے حکومت نے سپریم کورٹ میں اوپن بیلٹ طریقۂ کار کے ذریعے سینیٹ انتخابات کرانے پر رائے طلب کی۔
گزشتہ روز سپریم کورٹ نے خفیہ بیلٹ کے حق میں اپنی رائے سے نوازا اور آج الیکشن کمیشن نے بھی سینیٹ انتخابات خفیہ رائے شماری سے کرانے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے۔ صوبہ پنجاب میں حکومت نے اپوزیشن سے ہاتھ ملا لیا اور سینیٹ امیدوار بلا مقابلہ جیت گئے، تاہم باقی صوبوں اور وفاق میں ایسا نہ کیا جاسکا جس کی مختلف وجوہات ہیں۔
سندھ میں متحدہ قومی موومنٹ وفاق سے ناراض ہے جس نے گزشتہ روز جی ڈی اے کے ہمراہ سینیٹ انتخابات میں حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان کیا، تاہم سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں پی ٹی آئی حکومت کی پوزیشن اتنی مضبوط نہیں کہ بلا مقابلہ امیدواروں کو کامیاب کرایا جاسکے، اس لیے صرف بدعنوانی کی راہیں روکنے اور اپنے امیدوار کو جتانے کیلئے ہر ممکن اقدامات جاری ہیں۔
اپوزیشن کا لانگ مارچ
قبل ازیں ہم یہ ذکر کرچکے کہ اگر یوسف رضا گیلانی جیت گئے تو وزیرِ اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لائی جاسکتی ہے اور چیئرمین سینیٹ کیلئے بھی یوسف رضا گیلانی اپوزیشن کے متفقہ امیدوار قرار پائیں گے، تاہم اگر ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے یوسف رضا گیلانی کو پچھاڑ دیا تو پی ڈی ایم ایک بار پھر احتجاجی سیاست کا راستہ اپنائے گی۔
حکومت کا تختہ الٹنے کیلئے پی ڈی ایم ملک گیر لانگ مارچ اور اسلام آباد میں دھرنا دینے کا ارادہ رکھتی ہے جبکہ پیپلز پارٹی نے یہ لانگ مارچ کراچی سے شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
سندھ اسمبلی کی ہنگامہ آرائی
کل سینیٹ انتخابات منعقد ہونے والے ہیں اور آج پی ٹی آئی کے ناراض اراکینِ سندھ اسمبلی کی آمد پر تحریکِ انصاف کے ایم پی ایز نے انہیں دھر لیا، نازیبا کلمات کا تبادلہ کیا گیا اور پی پی پی اور پی ٹی آئی اراکین آپس میں گتھم گتھا ہو گئے۔
عام طور پر اسمبلی میں ہنگامہ آرائی کوئی نئی بات نہیں رہی کیونکہ سندھ اسمبلی کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی میں بھی حکومت اور اپوزیشن کے مابین نازیبا الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ پی ٹی آئی ارکان ناراض ارکان کو منانے کی بجائے انہیں پیٹ رہے تھے، اس دوران پی پی پی اراکین بیچ بچاؤ کرنے آئے تو یہ لڑائی شدت اختیار کر گئی۔
گزشتہ روز خرم شیر زمان نے کہا تھا کہ ہمارے 3 اراکین کو اغواء کر لیا گیا ہے۔ پھر ایک ویڈیو بیان میں ناراض اراکین نے اس کی تردید کی تاہم سندھ اسمبلی میں قادر بخش گبول یہ کہتے دکھائی دئیے کہ مجھے پی پی پی والوں نے اغواء کیا ہے اور میں پی پی پی والوں کو ووٹ نہیں دوں گا۔ یہ سب کیا ہے؟
دراصل سینیٹ انتخابات میں حکومت کی جیت کی راہیں ہموار کی جارہی ہیں اور پیپلز پارٹی نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلیں۔ اس لیے دونوں جانب سے ایک دوسرے کے خلاف شدید بیان بازی کا سلسلہ جاری ہے۔ سینیٹ انتخابات میں حفیظ شیخ اور یوسف رضا گیلانی کا معرکہ سب سے اہم ہوگا۔