یہ صرف پی ٹی آئی حکومت کا رونا نہیں بلکہ ہر دورِ حکومت میں ملکی معیشت کے استحکام سے متعلق مختلف خوشخبریاں سنائی جاتی ہیں اور عوام کو سبز باغ دکھا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ گزشتہ حکمران چور اور لٹیرے تھے۔ معاشی انقلاب موجودہ حکومت لائے گی۔
دراصل ملکی معیشت دو جمع دو چار کے فارمولے پر نہیں چلتی، معاشی اشاریے مختلف سمتوں میں ترقی و خوشحالی اور بعض دیگر اطراف میں بدحالی اور تنگدستی کی خبریں بھی سناتے ہیں لیکن عوام کو سکے کا صرف ایک رُخ دکھایا جاتا ہے۔ آئیے پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں۔
پاکستان کا تجارتی خسارہ
گزشتہ ماہ جنوری میں تجارتی خسارہ 22 کروڑ 90 لاکھ ڈالر ریکارڈ کیا گیا۔ یہ وہ دوسرا مہینہ تھا جب پاکستان کو تجارتی خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔ گزشتہ روز کی اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق جنوری 2020ءکے مقابلے میں جنوری 2021ء کا تجارتی خسارہ 55 فیصد کم ہے اور دسمبر 2020ء کے مقابلے میں 65 فیصد کم ہے۔مسلسل تجارتی خسارے کی وجہ اشیائے خوردونوش، صنعتی خام مال اور مشینری کی درآمدات میں ہونے والا اضافہ قرار دیا جارہا ہے۔
غیر ملکی سرمایہ کاری اور گردشی قرضہ
اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ جنوری میں بجلی اور ٹیلی کام کے شعبوں میں سرمایہ کاری 19 کروڑ 27 لاکھ ڈالر کی سطح پر تھی۔گزشتہ برس 2020ء کے اسی مہینے میں براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کا حجم 21 کروڑ 96 لاکھ ڈالر ریکارڈ کیا گیا تھا، یعنی براہِ راست سرمایہ کاری میں 1 سال کے عرصے میں 2 کروڑ 69 لاکھ ڈالر کی کمی ریکارڈ کی گئی۔
وفاقی حکومت کے توانائی ڈیژن کے سیکریٹری علی رضا بھٹہ کے مطابق ملک کا گردشی قرض 2 کھرب 30 ارب روپے تک جا پہنچا ہے، تمام تر معاشی مسائل کا ذمہ دار کورونا کو قرار دیا جارہا ہے۔
سرمایہ کاری میں کمی کی وجوہات
پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور کورونا کے اثرات کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی کمی کا نمایاں ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے۔ اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ سال کے آغاز می غیر ملکی سرمایہ کاری 85 فیصد کم تھی۔
جنوری 2021ء میں ملک میں مجموعی غیر ملکی سرمایہ کاری 24 کروڑ ڈالر تک رہی، جنوری 2020ء میں غیر ملکی بانڈز میں سرمایہ کاری کا حجم 1 ارب 38 کروڑ 73 لاکھ ڈالر تھا۔ جنوری 2021ء میں غیر ملکی عوامی سرمایہ کاری 4 کروڑ ڈالر تک محدود تھی۔
موجودہ مالی سال کے پہلے 7 ماہ میں مجموعی غیر ملکی سرمایہ کاری 2 ارب 68 کروڑ ڈالر کم رہی۔ جولائی سے جنوری کے دوران گزشتہ برس کے مقابلے میں سرمایہ کاری 78 فیصد کم ریکارڈ کی گئی۔
اسی طرح براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں 27 اعشاریہ 4 فیصد کمی آئی یعنی 1 ارب 14 کروڑ 53 لاکھ ڈالر کی کمی دیکھنے میں آئی۔ جولائی سے جنوری تک اسٹاک مارکیٹ سے بھی 23 کروڑ 63 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری نکالی جاچکی ہے۔غیر ملکی نجی سرمایہ کاری میں بھی 43 فیصد کمی آئی اور حجم 90 کروڑ 84 لاکھ ڈالر کم ریکارڈ کیا گیا۔
امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپیہ اور سونے کی فی تولہ قیمت
مقامی اوپن کرنسی مارکیٹ اور انٹر بینک میں گزشتہ روز ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں کمی دیکھی گئی۔ انٹر بینک میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمتِ خرید میں 7 پیسے کا اضافہ ہوا۔
ڈالر کی قیمت 159 روپے 3 پیسے سے بڑھ کر 159 روپے 10 پیسے رہی جبکہ قیمتِ فروخت 159 روپے 13 پیسے سے بڑھ کر 159 روپے 20 پیسے ہوگئی۔
مقامی اوپن کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی قیمتِ خرید میں 10 پیسے کا اضافہ ہوا جو 159 روپے سے بڑھ کر 159 روپے 10 پیسے ہو گئی۔ قیمتِ فروخت 159 روپے 30 پیسے سے بڑھ کر 159 روپے 40 پیسے ہو گئی۔
دوسری جانب عالمی اور مقامی مارکیٹ میں سونے کی فی تولہ قیمت میں 400 روپے اضافہ دیکھا گیا۔ عالمی مارکیٹ میں سونے کی فی اونس قیمت میں 14 ڈالرز کا اضافہ نوٹ کیا گیا جس سے فی اونس سونا 1 ہزار 798 ڈالر میں فروخت ہونے لگا۔
مقامی سطح پر بھی سونے کی قیمت 1 لاکھ 10 ہزار 750 روپے تک جا پہنچی جو اس سے قبل 1 لاکھ 10 ہزار 350 روپے تھی۔ 10 گرام سونے کی قیمت میں بھی 343 روپے اضافہ ہوا۔ نئی قیمت 94 ہزار 950 روپے ہو گئی۔
چینی بحران پر قابو پانے میں ناکامی
حال ہی میں چینی کا بحران پیدا ہوا جس پر قابو پانے کیلئے حکومت نے مختلف اقدامات اٹھائے۔ چینی بحران پر تحقیقات بھی ہوئیں اور ذمہ داران کے خلاف ایکشن بھی لیا گیا، تاہم حکومت تاحال چینی بحران پر قابو پانے میں ناکام ہے۔
کراچی، اسلام آباد اور لاہور سمیت ملک کے مختلف شہروں میں چینی کی فی کلو قیمت میں گزشتہ روز بھی اضافہ ہوا اور چینی 100 روپے فی کلو تک جا پہنچی۔ ادارۂ شماریات نے کہا کہ 7 روز میں لاہور میں چینی کی فی کلو قیمت میں 5 جبکہ کراچی میں 4 روپے تک اضافہ ہوا۔
بجلی کی قیمت میں اضافے کی تیاری
سنٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی نے گزشتہ ماہ کی فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے تحت بجلی کی فی یونٹ قیمت میں 93 فیصد اضافے کی درخواست کی جس پر نیپرا 2 روز بعد سماعت کرے گا۔
روئی کی قیمت 11 سال کی بلند ترین سطح پر
دنیا بھر میں روئی کی قیمتوں میں اضافے کا اطلاق پاکستان پر بھی ہوا ہے۔ کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کے مطابق رواں برس ملک میں روئی کی قیمت 11 سال کی بند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔
کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین احسان الحق نے گزشتہ روز کہا کہ روئی کی قیمت میں 200 روپے فی من اضافہ ہوا اور روئی 11 سال کی بلند ترین سطح 11 ہزار 500 روپے فی من تک جا پہنچی ہے۔
معیشت سے متعلق بعض اچھی خبریں
پی ایس او نے 4 روز قبل اعلان کیا کہ مالی سال 2021ء کے پہلے 6 ماہ میں بعد از ٹیکس 9 اعشاریہ 5 ارب روپے کا منافع ہوا۔ گزشتہ برس کی اسی مدت کے مقابلے میں منافع میں 48 فیصد اضافہ ہوا۔
آج سے 5 روز قبل یہ خبر بھی سننے کو ملی کی کہ حیدر آباد میں ٹماٹر مفت تقسیم ہونے لگے ہیں۔ کراچی میں ٹماٹر کے علاوہ آلو اور پیاز سمیت دیگر سبزیوں کی قیمت میں نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے 3 روز قبل ایف بی آر کی کارکردگی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 7 ماہ میں محصولات کا ہدف حاصل کرنا قابلِ تعریف ہے۔ ایف بی آر نے ٹیکس آڈٹ نافذ کیا اور اسمگلنگ کے خلاف کارروائی کی۔
طلب اور رسد کے اصول کے تحت بعض معاشی اشاریے استحکام کی نوید سنا رہے ہیں، تاہم دوسری جانب مشکلات میں اضافہ بھی جاری ہے۔حکومت عوام کی مشکلات پر قابو پانے کیلئے کوشاں ہے۔
حکومتِ وقت کو بے شمار معاشی چیلنجز کا سامنا ہے جن سے نبرد آزما ہونے کیلئے تجارتی خسارے، مہنگائی اور قرضوں پر قابو پانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔