پاکستان میں ای سپورٹس کے ذریعے معاشی استحکام کی تیاری اور نوجوان نسل کا مستقبل

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان میں ای سپورٹس کے ذریعے معاشی استحکام کی تیاری اور نوجوان نسل کا مستقبل
پاکستان میں ای سپورٹس کے ذریعے معاشی استحکام کی تیاری اور نوجوان نسل کا مستقبل

وفاقی وزیرِ سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے آج سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار ای سپورٹس کو باقاعدہ کھیل کا درجہ دینے کیلئے ایک یادداشت پر دستخط کیے گئے ہیں۔

وزیرِ سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کے بیان کے مطابق پاکستان سپورٹس بورڈ اور پاکستان سائنس فاؤنڈیشن کے درمیان یادداشت طے پائی ہے جس کے بعد ای سپورٹس باقاعدہ کھیل کا درجہ حاصل کر لے گی اور اگر آپ ویڈیو گیمز سے شغف رکھتے ہیں تو نئے مواقع آپ کے منتظر ہوں گے۔

نئی گیمنگ انڈسٹری اور پاکستان

ای گیمز کا رجحان پاکستان کیلئے نیا نہیں ہے کیونکہ پاکستانی نوجوان نسل 2000ء سے لے کر اب تک کمپیوٹر گیمز سے بہت اچھی طرح آشنا ہوچکی ہے اور اب موبائل پر بھی ایسی ایسی گیمز کھیلی جاتی ہیں جن کا پہلے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔

بد قسمتی سے ویڈیو گیمز کے بارے میں پاکستانی معاشرہ ایک منفی تاثر رکھتا ہے کہ یہ گیمز ہمارے بچوں کی نشوونما اور دماغی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں، حالانکہ یہ حقیقت نہیں ہے۔

ماضی میں پاکستان نے سرکاری سطح پر ویڈیو گیمنگ انڈسٹری پر توجہ نہیں دی تاہم موجودہ پی ٹی آئی حکومت نے گزشتہ برس سے ہی ویڈیو گیمز کی صنعت کو فروغ دینے کیلئے تیاری کر لی ہے۔ دسمبر 2020ء میں وزیرِ سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا تھا کہ ہم نے ای گیمنگ کا پلیٹ فارم بنا لیا ہے اور اب آپ 90 ارب ڈالر کی انڈسٹری کا حصہ بن سکتے ہیں ۔

مجموعی طور پر دنیا کے 2 ارب سے زائد افراد موبائل، کمپیوٹرز، پلے اسٹیشنز اور دیگر پلیٹ فارمز کے ذریعے گیمز کھیلتے ہیں جن میں سے اکثر دلچسپ اور خوبصورت ہوتی ہیں تاہم بعض گیمز تشدد پسند، جنسیت پر مبنی یا خوفناک بھی ہوسکتی ہیں جن سے گریز ضروری ہے۔ 

 ماہرِ نفسیات اور گیم ڈویلپر کی رائے 

نجی ٹی وی پروگرام میں ماہرِ نفسیات فاطمہ کریم کا گیمز کے حوالے سے کہنا تھا کہ گیمز کھیلنا کوئی بری بات نہیں ہے کیونکہ گیمز کی مختلف اقسام ہوسکتی ہیں اور والدین کو ہی اس بات پر نظر رکھنا ہوگی کہ ان کا بچہ کس قسم کی گیم کھیلتا ہے۔ تشدد پسند گیمز بڑوں اور بچوں دونوں کیلئے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہیں۔

گیم ڈویلپر فرحان عقیل کا کہنا تھا کہ عام طور پر والدین بچوں کو کمپیوٹر گیمز اور ویڈیو گیمز وغیرہ سے دور ہی دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ اگر والدین کو یہ پتہ چل جائے کہ گیمنگ انڈسٹری کی کیا ویلیو ہے یا گیمز سیکھ کر ہم کیا فائدے حاصل کرسکتے ہیں تو شاید ان کی رائے بدلے اور معاملات بہتر ہوجائیں۔ 

ویڈیو گیمنگ میں ملازمت کے مواقع 

جو لوگ ویڈیو گیمز کھیلتے ہیں، ان کی ایک بہت بڑی تعداد دنیا کے بیشتر ممالک، بالخصوص پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں اِس بات سے ناواقف ہوسکتی ہے کہ ویڈیو گیمنگ میں ملازمت یا نوکری بھی مل سکتی ہے۔

دراصل جو ویڈیو گیم کسی موبائل فون یا کمپیوٹر کی اسکرین پر کھیلی جارہی ہوتی ہے، اسے بنانے کیلئے گیم ڈویلپرز، ڈیزائنرز اور پروگرامرز کی ایک ٹیم موجود ہوتی ہے جو گیم کو ڈیزائن کرتی ہے، اسے بنانے کے بعد چیک کرتی ہے اور بعد ازاں اس کی خامیاں دور بھی کرتی ہے۔

اگر پروگرامنگ پر عبور حاصل کر لیا جائے تو گیمنگ انڈسٹری میں ملازمت کے بے شمار مواقع ہیں کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مارکیٹ میں نت نئی گیمز کی طلب میں اضافہ ہورہا ہے۔ 

گیمز کی قسمیں 

توجہ طلب بات یہ ہے کہ کمپیوٹر گیمز یا ویڈیو گیمز کسی ایک قسم کی نہیں بلکہ متعدد اقسام کی ہوتی ہیں جن میں ریسنگ، فائٹنگ، ایڈونچر اور ایکشن گیمز اہم اقسام سمجھی جاتی ہیں۔

شوٹنگ گیمز میں سے ایف پی ایس یعنی فرسٹ پرسن شوٹر گیمز سب سے زیادہ مقبول ہیں۔ ایسی گیمز میں کھلاڑیوں کو مختلف مشنز دئیے جاتے ہیں جنہیں پورا کرنا ہوتا ہے۔ 

نوجوان نسل اور گیمز کے مقابلے 

پاکستان کے بے شمار نوجوانوں نے ای گیمز سے اپنا مستقبل وابستہ کر لیا ہے، سن 2019ء کے دوران کراچی کے نوجوان سمیل حسن نے ویڈیو گیمز ٹورنامنٹ جیت کر 10 لاکھ ڈالر کی حد عبور کرنے والے کم عمر ترین گیمر کا اعزاز حاصل کر لیا۔

سمیل حسن نے سن 2015ء میں ڈوٹا 2 ایشین چیمپین شپ جیتی تھی جس کے عوض اسے 2 لاکھ 56 ہزار 831 ڈالر نقد رقم انعام میں دینے کے ساتھ ساتھ اس کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی درج کیا گیا۔ 

پاکستانی گیمنگ انڈسٹری اور عالمی رینکنگ 

سن 2011ء میں عمیر احمد اور دوستوں نے مل کر ایک نیٹ ورک کا آغاز کیا جسے گرین گیمنگ کمیونٹی کہا جاتا ہے اور یہ اس دور میں شروع ہوا جب پاکستان میں گیمنگ سرورز نہ ہونے کے برابر پائے جاتے تھے۔

عمیر اور ساتھیوں نے گیمز کے شوقین افراد کو سرورز مہیا کرنا شروع کیے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گیمرز کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا، کمیونٹی پھیلتی چلی گئی۔ گزشتہ برس تک یہ کمیونٹی پاکستان میں اول جبکہ عالمی ریکنگ میں 7ویں نمبر پر آچکی تھی۔

اس حوالے سے عمیر کا کہنا تھا کہ لوگوں کو کمپیوٹرز اور دیگر آلات گھروں میں آسانی سے دستیاب ہیں تاہم گیمنگ کیفیز کا رخ اس لیے کیا جاتا ہے کہ لوگ ٹیم بنا کر گیم کھیلتے ہیں یا پھر ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہیں۔

عالمی آن لائن یوتھ اسکریبل چیمپین شپ اور پاکستان

رواں ماہ 22 جنوری سے دنیا کی پہلی عالمی آن لائن یوتھ اسکریبل چیمپین شپ منعقد ہو رہی ہے جس کی میزبانی پاکستان کے حصے میں آئی ہے۔ چیمپین شپ میں 5 براعظموں کے 16 ممالک سے تعلق رکھنےو الے 96 کھلاڑی شامل ہوں گے۔

گزشتہ روز اس بات کا اعلان پاکستان اسکریبل ایسوسی ایشن کے ڈائریکٹر یوتھ پروگرام طارق پرویز نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کیا۔ چیمپین شپ کا پہلا مرحلہ 22 سے 24 جبکہ دوسرا 30 سے 31 جنوری تک جاری رہے گا۔

تمام کھلاڑیوں کی عمریں 18 سال سے کم ہیں۔ چیمپین شپ کی میزبانی کیلئے پاکستان کا انتخاب اسکریبل کی عالمی تنظیم ویسپا نے کیا ہے۔ کورونا کی موجودہ صورتحال اور ایس او پیز کے پیشِ نظر یہ مقابلے آن لائن منعقد ہوں گے۔ 

مستقبل کیا ہوگا؟

فی الحال اس حوالے سے تو کوئی پیشگوئی نہیں کی جاسکتی کہ گیمنگ انڈسٹری میں پاکستانی نوجوانوں کا مستقبل کیا ہوگا؟ تاہم گیمنگ ایک تیزی سے ترقی کرتی ہوئی صنعنت ہے جس میں پاکستان کے باصلاحیت گیم ڈویلپرز، ڈیزائنرز اور پروگرامرز کی کھپت آسانی سے عمل میں لائی جاسکتی ہے۔

حکومتِ پاکستان نے گیمنگ انڈسٹری کو باقاعدہ کھیل کا درجہ دینے کا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد پاکستان میں گیمنگ انڈسٹری کے فروغ میں تیزی اور ملکی معیشت میں بہتری کی امید وابستہ کی جاسکتی ہے۔

Related Posts