قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو کی سالگرہ اور پیپلز پارٹی کے سیاسی سفر کی خونچکاں داستان

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو کی سالگرہ اور پیپلز پارٹی کے سیاسی سفر کی خونچکاں داستان
قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو کی سالگرہ اور پیپلز پارٹی کے سیاسی سفر کی خونچکاں داستان

وطنِ عزیز پاکستان کے پہلے منتخب وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی 93ویں سالگرہ آج منائی جارہی ہے جو اپنے منفرد انداز، سیاسی تدبر اور فکر انگیز گفتگو کے باعث ملکی تاریخ میں اہم مقام رکھتے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھوں لگایا گیا ایک ایسا پودا ہے جو آگے چل کر تناور درخت کی صورت اختیار کر گئی اور آج ہم اسے ملک کی قومی سیاست میں ہر لحاظ سے متحرک اور اہم سیاسی جماعت کے روپ میں دیکھتے ہیں۔آئیے پی پی پی کے سیاسی سفر کی خونچکاں داستان اور ذوالفقار علی بھٹو کے حالاتِ زندگی پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو کے مختصر حالاتِ زندگی

صوبہ سندھ کے شہر لاڑکانہ میں سر شاہنواز بھٹو کے ہاں ذوالفقار علی بھٹو 5 جنوری 1928ء کے روز پیدا ہوئے۔ انہوں نے برکلے یونیورسٹی سے سیاسیات کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد مسلم لاء کالج میں درس و تدریس کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔

عدالتِ عالیہ سندھ میں ذوالفقار علی بھٹو نے کچھ عرصے تک وکالت بھی کی۔ بعد ازاں ملکی سیاست میں ایک اہم رہنما کے طور پر منظرِ عام پر آئے۔ سکندر مرزا کے دور میں ذوالفقار علی بھٹو وفاقی کابینہ کا حصہ بن گئے تھے۔

دورِ آمریت کے دوران صدر ایوب خان کی کابینہ میں ذوالفقار علی بھٹو اہم عہدوں پر فائز رہے جن میں وفاقی وزیرِ تجارت، وزیرِ اطلاعات و نشریات اور وزیرِ خارجہ جیسا اہم اور مؤقر ترین عہدہ شامل ہے جس سے ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی قد کاٹھ کا پتہ چلتا ہے۔

پیپلز پارٹی کی تشکیل سے ایٹمی پروگرام تک

آگے چل کر سن 1967ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی تشکیل دی اور سن 70ء کے انتخابات میں موجودہ پاکستان جسے مغربی پاکستان کہا جاتا تھا، یہاں پیپلز پارٹی ایک اکثریتی سیاسی جماعت بن کر ابھری۔

دسمبر 1971ء میں یحییٰ خان نے سانحہ مشرقی پاکستان کے دوران ذوالفقار علی بھٹو کو صدرِ مملکت بنا دیا اور سن 1973ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو ایک نیا متفقہ آئین دیا اور 1973ء کا یہ آئین آج بھی پاکستان میں مختلف آئینی ترامیم کے بعد نافذ العمل ہے۔

نئے آئین کے نفاذ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے وزیرِ اعظم بنے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان میں اسلامی سربراہی کانفرنس کے انعقاد کو ممکن بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ مشرقی پاکستان کا سانحہ اتنا بڑا تھا کہ اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے کیلئے ایٹمی پروگرام کا آغاز کردیا۔

دھاندلی کے الزامات، مارشل لاء اور پھانسی

سابق چیف آف آرمی اسٹاف اور آمر حکمران ضیاء الحق نے سن 1977ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات سامنے آنے کے بعد امن و امان کی خراب صورتحال پر قابو پانے کیلئے ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا تھا۔

یہی وہ سال تھا جب ستمبر کے دوران نواب احمد خان کے قتل کے الزام میں ملک کے منتخب وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو حراست میں لے لیا گیا اور اگلے ہی برس سندھ ہائی کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا سنا دی۔

سپریم کورٹ میں ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت دینے کے فیصلے کے خلاف اپیل کی گئی، تاہم سپریم کورٹ نے اپیل مسترد کرتے ہوئے سزائے موت کے فیصلے کو برقرار رکھا جس کے بعد راولپنڈی جیل میں 4 اپریل 1978ء کو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ 

بے نظیر بھٹو سے بلاول بھٹو زرداری تک

پی پی پی نے ذوالفقار علی بھٹو کو شہید کا خطاب دیا اور بے نظیر بھٹو اپنے والد کی مسند پر چیئرپرسن کی حیثیت سے براجمان ہوئیں۔ آگے چل کر 1988ء میں بے نظیر بھٹو پاکستان سمیت مسلم دنیا کی پہلی خاتون سربراہِ مملکت بنیں۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کو صرف 20 ماہ بعد صدرِ مملکت غلام اسحاق خان نے بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات پر وزارتِ عظمیٰ سے ہٹا دیا اور قومی اسمبلی برخاست کرا کر نئے انتخابات منعقد کرائے۔

مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف 1990ء میں وزیرِ اعظم منتخب ہوئے جبکہ محترمہ بے نظیر بھٹو قائدِ حزبِ اختلاف ٹھہریں۔ 1993ء میں صدر غلام اسحاق خان نے کرپشن کے الزامات عائد کرتے ہوئے نواز شریف حکومت کو بھی گھر بھیج دیا۔

بعد ازاں اکتوبر 1993ء کے انتخآبات میں پی پی پی اور حلیف جماعتوں کی کامیابی کے بعد بے نظیر بھٹو ایک بار پھر وزیرِ اعظم بنیں۔ 3 سال گزرنے کے بعد صدر فارق لغاری نے ماورائے عدالت قتل، بدعنوانی اور کرپشن کے الزامات پر یہ حکومت بھی برخاست کردی۔

مرتضیٰ بھٹو کے قتل اور حکومت ختم ہونے کے کچھ عرصے بعد بے نظیر بھٹو نے جلا وطنی اختیار کی اور دبئی اور عرب امارات میں قیام پذیر ہوئیں، اسی دوران حکومت مخالف اتحاد اے آر ڈی کی داغ بیل ڈالی گئی۔

سن 2006ء میں 14 مئی کے روز لندن میں بے نظیر اور نواز شریف نے میثاقِ جمہوریت پر دستخط کردئیے۔ 28 جولائی 2007ء کو بے نظیر بھٹو کی ملاقات صدر پرویز مشرف سے ہوئی جس کے دوران مبینہ طور پر مفاہمت طے پائی اور یوں کم و بیش 8 سال 6 ماہ کی جلاوطنی ختم ہوئی۔

سابق وزیرِ اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو 18 اکتوبر 2007ء کو وطن واپس آئیں۔ یہاں کراچی ائیرپورٹ پر شاہراہِ فیصل میں بم دھماکہ ہوا جس میں 150 افراد جاں بحق جبکہ سیکڑوں زخمی ہوئے تاہم بے نظیر بھٹو اس حملے میں محفوظ رہیں۔

اسی برس جنرل پرویز مشرف نے ایمرجنسی نافذ کردی اور پیپلز پارٹی نے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ 27 دسمبر 2007ء کو لیاقت باغ میں بے نظیر بھٹو کو ایک نامعلوم شخص نے فائرنگ کرکے شہید کردیا اور اس کے بعد اپنے آپ کو بھی دھماکے سے اڑا دیا۔

سیاسی و قومی تاریخ میں اُس وقت تک یہ سب سے بڑی دہشت گردی تھی جس کے دوران ملک کی سابق وزیرِ اعظم جاں بحق ہوگئیں۔ بے نظیر بھٹو نے وصیت کی تھی کہ پیپلز پارٹی کی قیادت بلاول بھٹو زرداری کو سونپ دی جائے اور ایسا ہی کیا گیا۔ 

موجودہ صورتحال اور قائدِ عوام کی سالگرہ

تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری پیپلز پارٹی کے چیئرمین ہیں جو آئندہ انتخابات 2023ء کی آمد سے قبل ہی موجودہ وزیرِ اعظم عمران خان کو نااہلی، بدعنوانی اور مہنگائی جیسے مسائل پر قابو نہ پانے کے مبینہ الزامات پر عہدے سے فارغ کرنے کے خواہاں ہیں۔

پی ڈی ایم کے نام سے پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور دیگر 11 اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد میں شامل ہوچکی ہے۔ بے نظیر بھٹو شہید کے شوہر آصف علی زرداری صدرِ مملکت بھی رہ چکے ہیں اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بھی ہیں۔

آصف علی زرداری کی سیاسی سوجھ بوجھ کی ایک دنیا معترف ہے۔ بلاول بھٹو زرداری ملک کے نئے وزیرِ اعظم کی حیثیت سے 2023ء یا اس سے قبل کسی بھی وقت سامنے آسکتے ہیں جبکہ ملکی سیاست میں حرفِ آخر کچھ نہیں ہوتا۔

قائدِ عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کی سالگرہ کے موقعے پر ملک بھر میں پیپلز پارٹی نے تقریبات کا اہتمام کیا ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ قائدِ عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کی دانشمندانہ سوچ اور لاجواب قیادت کی بدولت پاکستان کو نہ صرف عالمی سطح پر ایک بہترین پہچان ملی بلکہ عالمِ اسلام بھی پہلی بار ایک پلیٹ فارم پر یکجا ہوا۔ 

 

Related Posts