سندھ حکومت کو 122 عہدوں پر تعیناتی کے لیے کرپٹ افسر نہیں مل رہے ۔ سروے رپورٹ

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کراچی :سندھ میں اپوزیشن جماعتوں نے انتظامی عہدوں پر افسران کی تقرری نہ کرنے پر پی پی حکومت کو نشانے پر رکھ لیا،اپوزیشن رہنماؤں کاکہنا ہے کہ سندھ سرکار کو122 انتظامی عہدوں کے لیےکرپٹ افسران نہیں مل رہے اس لیے یہ عہدے خالی ہیں، درجنوں ایماندار افسران کو گھر بٹھا دیا گیا ہے۔

19 اور 20 گریڈ کی آسامیوں پر کرپٹ اور سیاسی مفادات کے لیے کام کرنے والے 17 اور 18 گریڈ کے او پی ایس افسران تعینات ہیں،ایم ایم نیوز ٹی وی سروئے میں مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماوں کا اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔

سندھ اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر فردوس شمیم نقوی ، پیپلز پارٹی کے رہنما رکن صوبائی اسمبلی ساجد جوکھیو،ایم کیو ایم کے سابق رکن قومی اسمبلی و سابق چیئر مین بلدیہ وسطی محمد ریحان ہاشمی، پاک سر زمین پارٹی کے رہنما سابق صوبائی وزیر شبیر قائم خانی و دیگر کا ایم ایم نیوز ٹی وی سروئے میں اظہار خیال کیا۔

سروئے میں قائد حزب اختلاف سندھ اسمبلی فردوس شمیم نقوی نے کہاکہ ان عہدوں پر پیپلز پارٹی کو من پسند افسران نہیں مل رہے جو مختص بجٹ کی ان کی مرضی کے مطابق بندر بانٹ کر سکیں۔یہ سنگین بد انتظامی ہے جس کے ذمہ دار وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ خود ہیں،دوسرے نمبر پر ہر اس محکمے کے وزراء ہیں جن کے محکموں میں انتظامی سربراہ کا تقرر نہیں کیا جا سکا ہے۔

ان کی نا اہلی کے باعث ایسا ہو رہا ہے، تیسری بڑی وجہ پیپلز پارٹی کے بعض طاقتور رہنماوں کی فرمائشیں ہیں ، جب ایک عہدے کے لیے 2 اہم رہنماوں کی سفارش آجاتی ہے تو اس پر تقرر نہیں ہوتا بلکہ کسی کو اضافی چارج دے کر جان چھڑائی جاتی ہے جس سےبد انتظامی ہو رہی ہے۔

سابق صوبائی وزیر اور پی ایس پی رہنما شبیر قائمخانی نے کہا کہ سندھ میں وزیر رہا ہوںآج بھی کئی زمہ دار اور فرض شناس افسران ہیں جنہیں پی پی حکومت نے گھر بٹھا رکھا ہے اور اپنے من پسند افسران کو تعینات کر رکھا ہے، انہوں نے کہا کہ سندھ میں خالی عہدوں پر تعیناتی کے لیے پیپلز پارٹی کو مزید کرپٹ افسران نہیں مل رہے۔

انہوں نے کہا کہ کراچی کے اداروں میں تعصب کی بنیاد پر غیر مقامی افسران کو بڑی تعداد مین تعینات کر دیا گیا ہے جبکہ یہاں سینئر اور اہل افسران کو گھر بٹھا دیا گیا ہے، یہ صورتحال کے ایم سی ، کے ڈی اے ، واٹر بورڈ اور ضلعی بلدیات میں ہے جس سے یہاں احساس محرومی بڑھ رہا ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ کے سابق رکن قومی اسمبلی و سابق چیئر مین وسطی محمد ریحان ہاشمی نے کہا کہ سندھ حکومت کرپٹ افسران کو ڈھونڈ رہی ہے جب مل جائیں گے تب ہی تعیناتی ممکن ہے، اسی لیے ادارے تباہ ہو رہے ہیں،انہوں نےکہا کہ سیاسی بنیادوں پر افسران کو تعینات کیا جا رہا ہے، کراچی کے اداروں میں غیر قمامی افسران کو تعینات کر کے ان اداروں کے افسران کی تضحیک کی گئی ہے اور انہیں گھروں پر بٹھا دیا گیا ہے۔

ایم کیو ایم کی پلی بارگین زدہ افسران کو عہدوں سے ہٹانےکی آئینی پٹیشن پر عدالتی فیصلہ آنے کے بعدمزید کرپٹ افسران سے عہدے خالی ہونے والے ہیں ، ان پر تعیناتی کے لیے مزید 500 افسران کی ضرورت ہے تاہم سندھ حکومت نے ابھی تک ایک بھی پلی بارگین زدہ افسر کو نہیں ہٹایا ہے جبکہ 14 جنوری کو انہیں عدالت کو رپورٹ دینی ہے۔

اس بد انتظامی کے باعث صوبہ مسائل کا شکار ہو رہا ہے اور سندھ کے عوام کو مشکلات کا سامنا ہے ، خصوصاََ سندھ کے شہری علاقوں میں اسی باعث زیادہ بد انتظامی ہے۔پیپلز پارٹی کے رکن سندھ اسمبلی اور سابق صوبائی وزیر ساجد جوکھیو نے کہا کہ تعیناتیاں جاری ہیں اور ایسا نہیں ہے کہ 122 عہدے خالی ہوں۔ اس بات سے انکار نہیں کہ کئی افسران گھروں پر بیٹھے ہیں تاہم ان افسران کو عہدوں پر تعینات کیا جاتا ہے جو اہل ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کرپشن کے خلاف ہے اور اس حوالے سے صوبائی محکمہ اینٹی کرپشن مکمل حرکت میں ہے ، چند ایک آسامیاں کالی ہیں جنہیں جلد صوابائی حکومت اچھے افران کو تعینات کر کے یہ شکایت بھی دور کر دے گی۔

مزید پڑھیں: ق کی ن سے قربتیں، ڈیل کا انکشاف، ملکی سیاست میں بھونچال، حکومت گرنے کا امکان

جہاں تک رہی بات مخالفین کے الزامات کی تو وفاقی حکومت میں جتنی بد انتظامی ہے اتنی ہی پنجاب حکومت میں بھی ہے ، اس سے زیادہ کہیں بد انتظامی نہیں ہے۔ سندھ حکومت نے ہمیشہ صوبے کے عوام کی بھلائی کے فیصلے کیے ہیں اور تقرر وتعینایتیاں بھی اسی تناظر میں کی جاتی ہیں ، ہم پر تعصب کا الزام لگانے والے خود تعصب کا عینک لگائے ہوئے ہیں ، اسی لیے انہیں اصل صورتحال نظر نہیں آرہی۔

Related Posts