پاکستان میں مندر کی توڑ پھوڑ کا واقعہ اور بطور مسلمان ہمارے فرائض

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان میں مندر کی توڑ پھوڑ کا واقعہ اور بطور مسلمان ہمارے فرائض
پاکستان میں مندر کی توڑ پھوڑ کا واقعہ اور بطور مسلمان ہمارے فرائض

گزشتہ برس 28 دسمبر 2020ء کے روز صوبہ خیبر پختونخوا میں مشتعل افراد نے ہندوؤں کے ایک مندر کی توسیع کے خلاف دھاوا بول دیا اور توڑ پھوڑ کی۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے یہ شہری دراصل مندر یا سماھی کی توسیع کے خلاف تھے جس کے پس منظر پر کچھ بات کرتے ہوئے ہمیں یہ سمجھنا ہے کہ آخر ایسا واقعہ کیوں پیش آیا اور مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے کیا کیا جاسکتا ہے۔

کرک کا واقعہ

تحصیل بانڈہ داؤد شاہ کے علاقے ٹیری میں مشتعل مظاہرین سمادھی کی توسیع کے خلاف تھے جہنوں نے احتجاج کے دوران مندر کی توسیع روکی جس پر پولیس کو یہ فیصلہ کرنے میں مشکل پیش آرہی تھی کہ کن دفعات اور کس واقعے کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے، جس کے باعث ایف آئی آر کے اندراج میں دیر لگ گئی۔

صبح 10 بجے پیش آنے والے اِس واقعے کا پس منظر یہ تھا کہ مقامی آبادی چاہتی تھی کہ ہندوؤں کے مندر میں توسیع نہ کی جائے جبکہ طویل عرصے سے ہندو اپنی سمادھی کو توسیع دینے کے حق میں تھے۔

یہ صرف مقامی افرا کا احتجاج نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے بعض سیاسی و مذہبی جماعت کے مقامی رہنماؤں کی تقاریر بھی تھیں جو مظاہرین کو یا تو شہہ دے رہے تھے یا پھر سمجھا رہے تھے، تاہم کافی دیر تک مظاہرین کا احتجاج پر امن رہا۔

بعد ازاں مبینہ طور پر احتجاج کرنے والے شہریوں میں سے کسی نے یہ آوازیں لگائیں کہ حکومت اور انتظامیہ مندر کی توسیع نہیں روکنے والے، ہمیں خود کچھ کرنا ہوگا، ایسا کہنا تھا کہ بڑی تعداد میں مظاہرین نے مندر پر حملہ کردیا۔

ڈنڈوں اور لاٹھیوں سے لیس مظاہرین نے اس حصے کو نقصان پہنچایاجس کے تحت مندر کو توسیع دی جارہی تھی۔ اور سمادھی کو بھی نقصان پہنچا۔ بعض شاہدین کے مطابق مظاہرین مشتعل تھے، پولیس کی نفری بے حد کم تھی اور کافی دیر تک مندر میں توڑ پھوڑ کی جاتی رہی۔ پھر پولیس پہنچی اور مشتعل مظاہرین منتشر کردئیے گئے۔ 

اسلام آباد میں مندر کی تعمیر اور ہائیکورٹ میں درخواستیں

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں گزشتہ برس 2020ء کے دوران مندر کی تعمیر کیلئے زمین مختص کی گئی جس پر سوشل میڈیا صارفین نے جی بھر کر تنقید کی۔

بعض اسلامی حوالوں سے علمائے دین بھی اِس حوالے سے رائے دیتے نظر آئے کہ اسلامی حکومت مندر کی تعمیر کیلئے زمین مختص کرسکتی ہے یا نہیں تاہم سوشل میڈیا صارفین کی اکثریت مندر کیلئے زمین مختص کرنے کے حق میں نہیں تھی۔

یہی مندر تھا جس کے متعلق جولائی 2020ء میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواستیں دی گئیں کہ مندر کی تعمیر روک دی جائے کیونکہ مندر ہندوؤں کی مذہبی عبادت گاہ ہے، اسلامی حکومت اسے ترویج نہیں دے سکتی۔

اسی ماہ 6 جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے مندر کی تعمیر روکنے سے متعلق درخواستوں کے قابلِ سماعت ہونے یا نہ ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ درخواستوں کی سماعت جسٹس عمر فاروق کی سربراہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے سنگل بنچ نے کی۔

قومی اسمبلی میں مندر کے خلاف پروپیگنڈے کی مذمت

شہرِ اقتدار کی قومی اسمبلی میں حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں نے سوشل میڈیا پر اقلیتوں کے خلاف پروپیگنڈے کی بھرپور مذمت کی اور کہا کہ پاکستان میں اقلیتوں کے تحفظ کیلئے ہر ممکن اقدامات اٹھائے جائیں۔ یہ 8 جولائی 2020ء کی بات ہے۔

وفاقی وزیرِ مذہبی امور پیر نور الحق قادری نے کہا کہ مندر کی تعمیرپر کام روک دیا گیا ہے، تعمیر  کیلئے کچھ اراکینِ اسمبلی ہمارے پاس آیئے اور فنڈز دینے کی درخواست کی، جنہیں ہم نے آگاہ کیا تھا کہ 4 کنال رقبے پر مندر کی تعمیر کیلئے فنڈز نہیں ہیں۔

پیر نور الحق قادری نے بتایا کہ ایسی کوئی پالیسی بھی نہیں کہ مندر کی تعمیر کیلئے خاص طور پر فنڈز مختص کیے جائیں، مندر کی تعمیر کے حوالے سے درخواست بہرحال وزیرِ اعظم کو ارسال کردی گئی تھی۔

علمائے دین کی مختلف آراء

وفاقی وزیر پیر نور الحق قادری نے فرمایا کہ علمائے دین کو مندر کی تعمیر کی بجائے اس کی فنڈنگ پر اعتراضات تھے۔ غیر مسلم اقلیتوں کی عبادت گاہیں تعمیر کرنے کیلئے فنڈز دینے پر مختلف علمائے دین مختلف رائے رکھتے ہیں۔ معاملہ اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیج دیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اسلامی نظریاتی کونسل میں تمام مکاتبِ فکر کی نمائندگی ہے۔ جس کا فیصلہ آجانے تک ہم نے مندر کی تعمیر پر کام روک دیا ہے جبکہ اس کی تعمیر کیلئے نقشہ فی الحال منظور نہیں ہوا۔ 

اسلامی نظریاتی کونسل کا فیصلہ اور ہندو برادری 

بعد ازاں اسلامی نظریاتی کونسل کا فیصلہ آگیا جس میں کہا گیا کہ ہندو برادری وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں مندر تعمیر کرسکتی ہے کیونکہ یہ کوئی خلافِ شریعت کام نہیں بلکہ یہاں ہندو اپنا قبرستان بھی تعمیر کرسکتے ہیں جسے عرفِ عام میں شمشان گھاٹ کہا جاتا ہے۔یہ فیصلہ اکتوبر کے دوران منظرِ عام پر آیا تھا۔ 

ہندو برادری نے فیصلے کا خیر مقدم کیا۔ واضح رہے کہ اسلام آباد میں مذکورہ مندر برسوں سے بند تھا۔ اور ہندو برادری کے پاس کوئی دھرم شالہ بھی نہیں تھی۔

پاکستان ہندو کونسل کے رہنما ڈاکٹر جے پال نے کہا کہ پاکستان کا امیج اب پوری دنیا میں بہتر ہوگا۔ کرتار پور کے حوالے سے بھی حکومت بہت اچھا فیصلہ کرچکی ہے۔ یہ فیصلہ پوری ہندو برادری کیلئے بھرپور خوشی کا باعث ہے۔ 

کرتارپور راہداری کی مثال

وزیرِ اعظم عمران خان نے ایک ایسا قدم اٹھایا جسے دنیا بھر میں متعصب بھارتی نریندر مودی حکومت کے مقابلے میں بھرپور پذیرائی ملی جبکہ کرتار پور سکھ برادری کیلئے سب سے بڑا مندر قرار دیا جاسکتا ہے۔

اگر مندر کی تعمیر ناجائز تھی تو سکھ برادری کیلئے بھی ناجائز قرار دی جانی چاہئے تھی، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ سوشل میڈیا صارفین اور عوام الناس کی اکثریت سکھوں کے مقابلے میں ہندوؤں کے زیادہ خلاف ہے، ہمیں اپنی اس رائے پر غور ضرور کرنا چاہئے۔ 

مذہبی ہم آہنگی وقت کی ضرورت

اسلام نے ہمیں بڑی سادگی سے سمجھایا کہ کسی اور کے خدا کو برا بھلا نہ کہو۔ کسی کے مندر کے ساتھ توڑ پھوڑ نہ کرو کیونکہ پھر وہ تمہارے خدا کو برا بھلا کہیں گے اور تماری مسجدوں میں توڑ پھوڑ کرنے آئیں گے جس سے خانہ جنگی کی راہ ہموار ہوگی۔

رواداری اسلام کی اعلیٰ ترین صفات میں سے ایک ہے۔ پھر بھی یہ سوال علمائے دین سے جب پوچھا گیا کہ دارالاسلام میں کیا مندر کی تعمیر جائز ہے؟ (یہاں دارالاسلام سے ہماری مراد اسلام آباد تھی)۔ اس پر کافی مفصل جواب سامنے آیا۔

فرمایا گیا کہ دارالاسلام میں 3 قسم کے علاقے شامل ہیں۔ اول وہ شہر ہوتا ہے جسے مسلمانوں نے آباد کیا ہو، وہاں صرف مسلمان رہتے ہیں، اس لیے وہاں غیر مسلم عبادت گاہ تعمیر نہیں کرسکتے۔

دوسری قسم کے علاقے وہ ہوتے ہیں جنہیں مسلمان بزورِ طاقت فتح کرتے ہیں۔ وہ مسلمانوں میں تقسیم کردئیے جاتے ہیں۔ مسلمانوں کا شہر بن جاتے ہیں جہاں غیر مسلموں کی نئی عبادت گاہوں کی تعمیر ممنوع ہوتی ہے تاہم اگر وہاں غیر مسلموں کی آبادی ہو اور انہیں شہریت بھی دی جارہی ہوتو انہیں نئی عبادت گاہ بنانے سے روکا نہیں جاسکتا۔

تیسری قسم کے علاقے وہ علاقے ہیں جو صلح اور معاہدے کے تحت حاصل کیے جاتے ہیں۔ جہاں معاہدے کی شرائط کے مطابق عمل ہوگا۔ اگر یہاں اراضی پر قدیم آبادی کی ملکیت قائم ہو جو غیر مسلم ہوں تو نہ صرف ان کی پہلے سے موجود عبادت گاہیں قائم رہیں گی بلکہ ان میں تعمیر و ترقی اور اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے۔

بلا شبہ مذہبی ہم آہنگی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہر مسلمان کو چاہئے کہ دیگر مذاہب کا احترام کرے اور حتی الوسع کسی کی عبادت گاہ کو کبھی نقصان نہ پہنچائے بلکہ اگر کوئی غیر مسلم آپ کو مندر میں داخلے کی اجازت نہ دے تو مذہبی رواداری کا تقاضا یہی ہے کہ اس کی خواہش کا احترام کیا جائے۔

ہندو برادری، مسیحی شہری اور دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی انسان ہیں جن کے تمام تر حقوق وطنِ عزیز پاکستان کے شہری کی حیثیت سے ہمیں مساوی تسلیم کرنا ہوں گے۔ 

Related Posts