کے ڈی اے کے ریٹائرڈ ملازمین کے 3 ارب واجبات کیلئے سندھ حکومت نے 50 کروڑ دیدیے

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Sindh govt releses 500 million for 3 billion dues of retired KDA employees

کراچی : سندھ ہائی کورٹ کے احکامات پر ادارہ ترقیات کے ریٹائرڈ ملازمین کےپونے 3ارب روپے کے واجبات کی ادائیگی کیلئے سندھ حکومت نے کے ڈی اے کیلئے 50 کروڑ روپے جاری کردیئے۔

سندھ ہائی کورٹ میں آئینی پٹیشن نمبرC.P NO.D-105/2019کا فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے کے ڈی اے کو حکم دیا تھا کہ چاہے خود کو بیچنا پڑے یا کے ڈی اے کو مگر مذکورہ پونے تین ارب کے واجبات ریٹائرڈ ملازمین کا حق فوری ادا کریں۔

اس حکم پر کے ڈی اے افسران نے سندھ حکومت سے خصوصی بیل آوٹ پیکیج دینے کی اپیل کی تھی جس پر سندھ حکومت کے محکمہ فنانس نے صرف 50 کروڑ روپے پیل آوٹ پیکیج کی مد میں جاری کر دیے۔

یہ رقم سیکریٹری بلدیات کے ذریعہ ادا کرنے کی ہدایت دی گئی ہے جبکہ یہ رقم خصوصی طور پر مذکورہ آئینی پٹیشن کے تناظر میں صرف ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات کی ادائیگی کے لیے دی گئی ہے۔

ادارہ ترقیات کراچی کے ریٹائرڈ ملازمین کی کثیر تعداد کو 2011 سے وجبات ادا نہیں کیے جا سکےجس کی بڑی وجہ سندھ حکومت ادارہ ترقیات کراچی کو جو گرانٹ ماہانہ تنخواہوں کی مد میں ادا کر تی ہے اس میں بے انتہا کٹوتی کی جاتی ہے۔

مزید پڑھیں:کراچی میں لینڈ مافیا کو کھلی چھوٹ، رکھوالے خود اراضی پرقبضے کرانے لگے

اگر ایک افسر کی تنخواہ ایک لاکھ روپے ہے اور اس میں سے اس کے پراویڈنٹ فنڈ کے 30 ہزار روپے کاٹ کر فنڈ میں جمع کرانے ہوتے ہیں تو حکوت سندھ ایک لاکھ روپے دینے کے بجائے صرف 70 ہزار ادا کرتی ہے جس کے باعث اس افسر یا ملازم کے فنڈ میں گزشتہ 10 سال سے کچھ جمع ہی نہیں ہو پا رہا یہی وجہ ہے کہ ریٹائرڈ ملازمین کے واجبا ت ادا کرنے کے لیے رقم ہی موجود نہیں ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ کے ڈی اے کے ریٹائرڈ ملازم خضر حیات جو ادارے میں ٹیلیفون آپریٹر تھے انہوں نے کے ڈی اے سے مایوس ہو کر وجبات کی وصولی کے لیے سندھ ہائی کورٹ میں آئینی پٹیشن نمبرC.P NO. D – 105/2019کی تھی تاہم وہ عدالتی فیصلہ آنے کے موقع پر ملک میں موجود نہیں ہیں ۔

Related Posts