16 اکتوبر 2014ء کا سورج پاکستان میں انتہائی تلخ یادوں کے ساتھ غروب ہوا، سفاک، دہشت گردوں نے پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں حیوانیت کی ایسی مثال قائم کی جس نے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کو ہلاکر رکھ دیا۔
بچوں کو علم کےزیورسے آراستہ کرنے والے آرمی پبلک اسکول کی پرنسپل، عملہ اور اساتذہ بھی اپنے ہاتھوں سے سینچے گئے ان ننھے پودوں کو بچاتے بچاتے دہشت گردوں کی بھینٹ چڑھ گئے، اس کربناک دن کے اختتام پرپشاورشہر کی ہر گلی سے جنازہ اٹھااور فضاء سوگوار رہی۔
سانحہ آرمی پبلک اسکول
16 دسمبر 2014ء کو تحریک طالبان پاکستان کے 7 دہشت گرد ایف سی کے لباس میں ملبوس پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں پچھلی طرف سے داخل ہو گئے اور ہال میں جا کر اندھا دھند فائرنگ کی،اس کے بعد کمروں کا رخ کیا اور وہاں پر بچوں کو گولیاں ماریں، سربراہ ادارہ کو زندہ جلا دیا۔
9 اساتذہ، 3 فوجی جوانوں کو ملا کر کل 144 ہلاکتیں اور 113سے زائدافرادزخمی ہوئے۔ ہلاک ہونے والے 132 بچوں کی عمریں 9 سے 18 سال کے درمیان تھیں۔ پاکستانی آرمی نے 950 بچوں و اساتذہ کو اسکول سے بحفاظت نکالا، ایک دہشت گرد نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا جبکہ 6 مارے گئے۔
تلخ یادیں
سنہرے مستقل کا خواب آنکھوں میں سجائے اجلے کپڑوں اور روشن چہروں کے ساتھ سرما کی ٹھنڈی صبح اسکول آنے والے 132 بچے دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے اور درجنوں زخمی ہوئے جن میں سے کچھ معذور بھی ہوگئے ، سانحے میں شہید بچوں کے والدین آج بھی اپنے بچوں کی راہ تک رہے ہیں۔
سانحہ کے بعد اپنے بچے کھونے والی کئی مائیں اپنا ذہنی توازن کھوچکی ہیں، باپ اپنے سہارے کھونے کے بعد ٹوٹ چکے ہیں اور آج بھی دسمبر کے آغاز میں ملک کی فضا ء سوگوار ہوجاتی ہے ،وہ والدین جو کبھی اپنے بچوں کو بھولے ہی نہیں ان کے زخم مزید رسنے لگتے ہیں اور ماں باپ کی سسکیاں اور آہیں عرش ہلادیتی ہیں۔
دہشت گرد کون تھے؟
اسکول پر حملہ کرنیوالے تمام دہشت گردغیر ملکی تھے جبکہ 6 دہشت گردوں کی شناخت ظاہر کی گئی ،حملہ آوروں کا سرغنہ چیچن دہشت گرد ابو شامل تھا جسے عبد الرحمان بھی کہا جاتا ہے، دوسرا دہشت گرد نعمان شاہ ہلمند مطلوب افغان دہشت گرد تھا جس پر امریکی حکومت نے 5 لاکھ ڈالر انعام رکھا تھا۔
تیسرے دہشت گرد وسیم عالم ہرات کا تعلق بھی افغانستان سے تھا، چوتھا دہشت گرد مصر کا خطیب الزبیدی تھا۔5 ویں دہشت گرد محمد زاہدی کاتعلق مراکش سے تھا ، چھٹے دہشت گرد کا نام جبران السعیدی معلوم ہوا جو عرب تھالیکن اس کے علاوہ معلومات نہیں ملیں جبکہ ساتویں دہشت گردی کی شناخت نہیں بتائی گئی۔
تحریکِ طالبان پاکستان
آرمی پبلک اسکول پر حملے کی ذمہ داری کالعدم دہشت گردتنظیم تحریکِ طالبان پاکستان نے قبول کی، تنظیم کے مرکزی ترجمان محمد عمر خراسانی نے کہا کہ ہمارے 6حملہ آور اسکول میں داخل ہوئے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ کارروائی شمالی وزیرستان میں جاری فوجی آپریشن ضربِ عضب اور خیبر ایجنسی میں جاری آپریشن کا جواب ہے۔
حکومت کا ردعمل
حکومت پاکستان نے المناک سانحہ پر ملک میں پھانسی کی سزا پرپابندی ختم کرنے کا اعلان کیا اور دہشت گردی کے مقدمات میں سزائے موت مجرموں کو تختہ دار پر لٹکایا گیا اور دہشت گردوں کیخلاف جاری آپریشنز کا دارہ کار وسیع کرکے ملک بھر میں کارروائیاں تیز کردی گئیں اور اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور آئی ایس آئی کے چیف جنرل رضوان اختر فوری افغانستان پہنچے جہان افغان قیادت سے دہشت گردوں کی پشت پناہی ترک کرنے اور مطلوب دہشت گردوں کو حوالے کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
واقعہ کی ذمہ داری
حملے سے متعلق حقائق معلوم کرنے کے لیے قائم عدالتی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں واقعہ کو سیکورٹی کی ناکامی قرار دیا ،پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس محمد ابراہیم خان نے 500 سے زائد صفحات پر مشتمل سانحہ آرمی پبلک سکول کی رپورٹ جولائی 2020 میں چیف جسٹس آف پاکستان کو بھیجی تھی۔
کمیشن نے واقعے میں زخمی ہونے والے بچوں اور شہیدبچوں کے والدین سمیت 132 افراد کے بیانات لینے کے بعد رپورٹ مرتب کی تھی۔ اس رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ دہشت گرد افغانستان سے مہاجرین کے روپ میں پاکستان میں داخل ہوئے ،اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دہشت گرد اسکول کے عقب سے بغیر کسی مزاحمت کے داخل ہوئے اوراگر گارڈز نے مزاحمت کی ہوتی تو شاید اتنا جانی نقصان نہ ہوتا۔
دہشت گردوں کیخلاف اقدامات
آرمی پبلک اسکول پر حملے میں 7 دہشت گردوں نے عملی طور پر حصہ لیا تاہم یہ گروہ 27 دہشت گردوں پر مشمل تھا جس میں سے 9 دہشت گردہلاک اور 12 کو زندہ گرفتار کیاگیا جن میں سے متعدد دہشت گردوں کوعدالتوں میں سزائیں سنائی گئیں، اس سانحہ کے بعد پاکستان میں دہشت گردوں کیخلاف کارروائیوں میں تیزی آئی اور فوجی عدالتوں میں دہشت گردوں کو سخت سزائیں بھی سنائی گئیں تاہم عدالتی تحقیقاتی رپورٹ کی روشنی میں اداروں کو مستقبل میں ایسے المناک سانحات سے نمٹنے کیلئے مربوط سیکورٹی اقدامات کرنے چاہئیں اور کسی بھی قسم کی دہشت گردی میں ملوث گروہوں اور افراد کو بغیر کسی رعایت کے عبرت کا نشان بنانا چاہیے۔