کچی پنسل سے کالے کوٹ تک، احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کی زندگی کی مکمل داستان

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

The story of life for former accountability court judge Arshad Malik

راولپنڈی: ویڈیو اسکینڈل کے باعث زیر عتاب آنیوالے احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کے خاندان کا کورٹ کچہری سے گہرا تعلق تھا، مرحوم نے 14 سال وکالت اور 18 سال بطور جج خدمات انجام دیں۔

ویڈیو اسکینڈل کی وجہ سے ہٹائے گئے احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک 25مئی 1962ء کو ارجن میں ہی پاکستان ریلوے کے ملازم ملک غلام محمد کے گھر پیدا ہوئے،دو بہنوں سمیت آپ کل 7بہن بھائی تھے۔

ارشد ملک گوجر خان کچہری میں وکالت کرتے اور گوجر خان بار ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری بھی رہ چکے ہیں،اس خاندان کوشعبہ وکالت اور کورٹ کچہری کی طرف راغب کرنے کا اصل محرک بابو عبدالرحمن مرحوم تھے۔

بابو عبدالرحمن اسلام آباد کچہری میں ملازمت کرتے تھے اور انہی کی کاوشوں اور تحریک پیدا کرنے پر ارشد ملک کے بڑے بھائی عرفان ملک نے راولپنڈی کچہری میں بطور منشی کا م کا آغاز کیا،بعد ازاں عرفان ملک نے ہی اپنے چھوٹے بھائیوں کو بھی وکالت اور عدالت کے میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا۔

ارشد ملک نے 1978ء میں گورنمنٹ ہائی اسکول مندرہ سے میٹرک کیا، گورنمنٹ سرور شہید(نشان حیدر) ڈگری کالج گوجر خان سے ایف اے اور بی اے بالترتیب 1980ء میں اور 1983ء میں کیا۔ ارشد ملک کاشمار ذہین طلباء میں ہوتا تھا۔

بی اے کرنے کے بعد ارشد ملک نے اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد میں داخلہ لیا اور 1986ء میں ایل ایل بی(لاء آنرز) کرنے کے بعد سابق جج لاہور ہائیکورٹ اور سابق ایم این اے راجہ عبدالعزیز بھٹی مرحوم کی شاگردی میں آگئے اور ان سے وکالت کے اسرار و رموز سیکھتے رہے۔

ََ14سال گوجر خان اور راولپنڈی کچہری میں پریکٹس کرنے کے بعد ارشد ملک 2000ء میں ایڈیشنل سیشن جج ملتان تعینات ہوئے بعد ازاں خوشاب،چنیوٹ میں بھی اپنی خدمات بطور ایڈیشنل سیشن جج سر انجام دیتے رہے۔

جج بینکنگ کورٹ گوجرانوالہ بنا دیئے گئے،وہاں سے چیئرمین ڈرگ کورٹ راولپنڈی تعینات ہوئے، سیشن جج بننے کے بعد انکی پہلی تعینات چنیوت ہوئی پھر وہاں سے اوکاڑہ ٹرانسفر ہوئی،آخری تعیناتی بطور جج احتساب عدالت نمبر2اسلام آباد میں ہوئی تھی۔

ارشد ملک کاایک بیٹا عمار ارشد فاسٹ یونیورسٹی سے بی بی اے کرنے کے بعد آجکل آسٹریلیا میں ملازمت کر رہا ہے،دوسرا بیٹا سروش ارشد روس کی ایک یونیورسٹی سے ایل ایل بی کر رہا ہے، ارشد ملک کی دو صاحبزادیاں ہیں اور دونوں ہی ڈاکٹر ہیں۔

ویڈیو اسکینڈ کی وجہ سے ارشد ملک کو14ستمبر2019 آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی او ایس ڈی بنا یا گیا، سابق جج کو او ایس ڈی بنائے جانے کا نوٹیفکیشن رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ نے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے حکم سے جاری کیا۔

یاد رہے کہ 26 اگست کو لاہور ہائیکورٹ کی انتظامی کمیٹی نے ویڈیو اسکینڈل پر جج ارشد ملک کو ملازمت سے برطرف کرنے کے لیے شوکاز نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

6 جولائی 2019 کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت نے پریس کانفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو سزا سنانے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ایک ویڈیو جاری کی جس میں مبینہ طور پر یہ بتایا گیا کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو نواز شریف کو سزا سنانے کے لیے بلیک میل کیا گیا۔

اس بنیاد پر مریم نواز نے یہ مطالبہ کیا کہ چونکہ جج نے خود اعتراف کرلیا ہے لہٰذا نواز شریف کو سنائی جانے والی سزا کو کالعدم قرار دے کر انہیں رہا کیا جائے تاہم جج ارشد ملک نے ویڈیو جاری ہونے کے بعد اگلے روز ایک پریس ریلیز کے ذریعے اپنے اوپرعائد الزامات کی تردید کی اور مریم نواز کی جانب سے دکھائی جانے والی ویڈیو کو جعلی اورفرضی قرار دیا۔

اس معاملے پر کابینہ اجلاس کے دوران وزیراعظم عمران خان نے مؤقف اپنایا کہ اعلیٰ عدلیہ کو اس معاملے کا نوٹس لینا چاہیے۔ وزیراعظم کے بیان کے بعد جج ارشد ملک کی اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائمقام چیف جسٹس عامر فاروق سے ملاقات ہوئی، اس کے بعد قائمقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق نے چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ سے ملاقات کی۔

ان اہم ملاقاتوں کے بعد 12 جولائی 2019 کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائمقام چیف جسٹس عامر فاروق نے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا جس کے بعد وزرات قانون نے ان کو مزید کام سے روکتے ہوئے ان کی خدمات لاہور ہائیکورٹ کو واپس کردیں۔

اس دوران جج ارشد ملک کا ایک بیان حلفی بھی منظر عام پر آیا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ نوازشریف کے صاحبزادے حسین نواز نے انہیں رشوت کی پیشکش کی۔جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو سے متعلق کیس کا فیصلہ سپریم کورٹ نے 20 اگست کو محفوظ کیا تھا جسے چیف جسٹس نے 23 اگست کو سنایا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ یہ مرحلہ نہیں ہے کہ سپریم کورٹ کورٹ ویڈیو اور اس کے اثرات میں مداخلت کرے، بالخصوص متعلقہ ویڈیو کا تعلق اسلام آباد میں زیر التوا اپیل سے ہے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ویڈیو لیکس کے معاملے پر ایف آئی اے نے تفتیش شروع کر دی ہے۔

معاملے کی تحقیقات پر حکومت یا عدالت کی طرف سے کسی کمیشن کے قیام کی رائے کا کوئی فائدہ نہیں۔فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ جج ارشد ملک نے نواز شریف کے خلاف فیصلہ دیا، ارشد ملک لاہور ہائی کورٹ کے ماتحت ہیں جو ڈیپوٹیشن پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے ماتحت احتساب عدالت نمبر 2 میں تعینات ہوئے۔

عدالت کو آگاہ کیا گیا ہے کہ ارشد ملک کو احتساب عدالت کے جج سے ہٹا کر او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جج ارشد ملک کی 7 جولائی کی پریس ریلیز اور 11 جولائی کا بیان حلفی ان کے خلاف فرد جرم ہے۔

Related Posts