سابق وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار پر حکومت کے الزامات، کتنی حقیقت، کتنا فسانہ؟

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

سابق وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار پر حکومت کے الزامات، کتنی حقیقت، کتنا فسانہ؟
سابق وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار پر حکومت کے الزامات، کتنی حقیقت، کتنا فسانہ؟

گزشتہ روز سابق وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کو انٹرویو دیا جس کے دوران جو باتیں ہوئیں، اس پر آج مشیرِ داخلہ احتساب شہزاد اکبر اور وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی شہباز گِل نے پریس کانفرنس کر ڈالی۔

سوال یہ ہے کہ سابق وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے ایسی کیا باتیں کیں کہ وفاقی حکومت کے 2 اعلیٰ حکام نے شہرِ اقتدار میں ان کے خلاف پریس کانفرنس کرنا ضروری سمجھا؟ اور پھر حکومت نے اس پریس کانفرنس میں اسحاق ڈار پر جو الزامات لگائے ہیں وہ کس حد تک درست اور حقائق پر مبنی ہوسکتے ہیں؟ آئیے ان تمام سوالوں کے جوابات تلاش کرتے ہیں۔

سابق وزیرِ خزانہ کا انٹرویو

برطانوی دارالحکومت لندن میں ن لیگی رہنما اور سابق وزیرِ داخلہ اسحاق ڈار نے ہارڈ ٹاک نامی بی بی سی شو میں پاکستان کے اقتصادی مسائل، حکومت مخالف پی ڈی ایم اور سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی قومی اداروں کے خلاف محاذ آرائی پر گفتگو کی۔

گفتگو کے دوران اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان میں ڈیپ اسٹیٹ کی مثال ہیلری کلنٹن نے بھی دی اور یہ بات ڈان لیکس سے شروع ہوئی تھی، سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف پارلیمنٹ کی بالادستی چاہتے ہیں۔ جب سوال کیاگیا کہ کیا پاک فوج اور آرمی چیف ملک کے جمہوری عمل کو کمزور کر رہے ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ ہمارے ساتھ ساتھ عالمی رپورٹس بھی یہی بات کرتی ہیں۔

یہاں اسحاق ڈار نے یہ بھی کہا کہ فوج کا پورا ادارہ نہیں بلکہ کچھ افراد کی خواہش اور منصوبہ یہ ہے جو پاکستان میں مارشل لاء لگانے کے حامی ہیں اور یہ ثابت ہوچکا ہے کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی۔

پوچھا گیا کہ آپ کے قائد نواز شریف تو کئی سالوں تک سابق آمر حکمران ضیاء الحق کے ساتھ کام کرتے رہے، کیا یہ بات منافقت نہیں؟ تو انہوں نے اپنے طرزِ عمل کو منافقت کی بجائے ارتقاء قرار دیا۔

اسٹیفن سیکر نامی اینکر پرسن نے پوچھا کہ آپ کیا قانون سے بچنے کیلئے لندن تشریف لائے ہیں؟ کیونکہ آپ تو پاکستان میں اشتہاری قرار دے دئیے گئے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ آمریت کے ادوار میں بدعنوانی کا الزام بار بار لگایا گیا۔ یہ کوئی مختلف بات نہیں ہے۔ موجودہ حکومت خفیہ آمریت اور جوڈیشل مارشل لاء کے مترادف ہے۔

انٹرویو کے دوران اسحاق ڈار نے کہا کہ یہ ثابت بھی کیا جاسکتا ہے کہ مجھ پر لگائے گئے تمام تر الزامات بے بنیاد ہیں، پاناما پیپرز میں میرا نام نہیں تھا اور میں ثبوت پیش کرسکتا ہوں کہ یہ الزامات غلط ہیں۔

جے آئی ٹی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر ایک مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی بنی جو ماورائے عدالت اقدام تھا اور کمیٹی میں 2 فوج کے افسران بھی شامل رہے، ان کا کام پوری ٹیم کی نگرانی تھا۔ نیب کی اہمیت نہیں رہی کیونکہ یہ سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال ہوتا ہے۔

خود پر الزامات کو غلط قرار دیتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ میں نے کبھی اپنے گوشوارے جمع کرانے میں غفلت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ جے آئی ٹی کا الزام بے بنیاد ہے کہ میں نے 1981ء سے 2001ء تک ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کرائے تھے۔

جائیدادوں سے متعلق سوال پر اسحاق ڈار نے کہا کہ میرے پاس صرف 1 جائیداد ہے جو پاکستان میں میرا گھر ہے اور مجھ سے یہ گھر چھین لیا گیا ہے۔ میرے بچوں کا ایک ولا ہے جو 17 سال سے کاروباری میدان میں ہیں۔ تفتیش سے مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔نیب کی حراست میں درجنوں لوگوں کو قتل کردیا گیا۔

اسلام آباد کی پریس کانفرنس میں شہزاد اکبر کا بیان 

انٹرویو کے مندرجات پر اسلام آباد میں مشیرِ داخلہ احتساب شہزاد اکبر اور معاونِ خصوصی شہباز گِل نے پریس کانفرنس کی۔ مشیرِ داخلہ احتساب نے کہا کہ اسحاق ڈار نے اپنی کئی جائیدادوں کے بارے میں انٹرویو کے دوران کچھ نہیں بتایا۔

مشیرِ داخلہ احتساب شہزاد اکبر نے کہا کہ اسحاق ڈار 1 جائیداد کا اقرار کر رہے تھے اور وہ غیر ملکی صحافی کے سوالات کا جواب نہ دے سکے، اگر وہ پاکستان آئے تو عدالت کے سوالات کا ان کے پاس کیا جواب ہوگا؟

ن لیگی رہنما و سابق وزیرِ خزانہ کے انٹرویو کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے شہزاد اکبر نے کہا کہ اسلام آباد میں ان کی 6 ایکڑ زمین، الفلاح سوسائٹی میں 3 پلاٹس، لینڈ کروزر سمیت 8 گاڑیاں ہیں۔ ڈی ایچ اے 4 میں ان کا گھر بھی ہے۔ 

معاونِ خصوصی شہباز گِل کا بیان 

شہزاد اکبر کے ہمراہ پریس کانفرنس میں شریک معاونِ خصوصی شہباز گِل نے کہا کہ انٹرویو کے دوران اسحاق ڈار کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں ، ایسے لوگ جو ملک سے باہر بیٹھ کر اداروں پر حملے کریں، قوم کے خیر خواہ نہیں ہوسکتے۔

سابق وزیرِ خزانہ پر تنقید کرتے ہوئے شہباز گِل نے کہا کہ یہ لوگ ملک کا پیسہ لوٹنے کے بعد کہتے ہیں کہ ہماری بات نہیں سنی جاتی، پوچھا گیا کہ آپ بیمار نہیں لگتے تو کہنے لگے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بی بی سی کی کوشش تھی کہ نواز شریف کا انٹرویو لیا جائے لیکن مریم صفدر سے رابطے کے بعد اسحاق ڈار انٹرویو کیلئے سامنے آئے۔ کبھی وہ انٹرویو میں زبان باہر نکال لیتے اور کبھی آنکھیں ٹیڑھی کر لیتے تھے۔

سرکاری الزامات اور حقائق 

توجہ طلب بات یہ ہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) ہو یا جے آئی ٹی، اسحاق ڈار اور نواز شریف سمیت اپوزیشن کا کون سا رہنما ایسا ہے جس کے خلاف کوئی مضبوط مقدمہ تیار کرکے اسے سزا دلائی گئی ہو؟

آج  میاں نواز شریف ملک سے باہر بیٹھے ہیں، شاہد خاقان عباسی، شہباز شریف، حمزہ شہباز اور ن لیگ کی دیگر قیادت مقدمات بھگتتی پھر رہی ہے اور پیپلز پارٹی رہنماؤں کا بھی یہی حال ہے جن میں سابق صدر آصف زرداری سے لے کر اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی تک سب شامل ہیں۔

اب تک کی حقیقت یہ ہے کہ دونوں جانب سے صرف الزام تراشی کا سلسلہ جاری ہے اور حکومت کے دستاویزی ثبوت سامنے ہوتے ہوئے بھی انصاف نہ ملنا ملک کے عدالتی نظام پر بے شمار سوالات کو جنم دے رہا ہے۔ حقیقت کیا ہے، یہ فیصلہ عدالتوں پر چھوڑنا ہی بہتر ہوگا۔ 

Related Posts