ٹک ٹاک ویڈیوز بناتے ہوئے سیکیورٹی گارڈز کی پراسرار ہلاکتیں اور بے بس قانون

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ٹک ٹاک ویڈیوز بناتے ہوئے سیکیورٹی گارڈز کی پراسرار ہلاکتیں اور بے بس قانون
ٹک ٹاک ویڈیوز بناتے ہوئے سیکیورٹی گارڈز کی پراسرار ہلاکتیں اور بے بس قانون

کراچی میں گزشتہ 9 روز کے دوران ٹک ٹاک ویڈیوز بناتے ہوئے 2 سیکیورٹی گارڈز نے اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کردی جبکہ دونوں نوجوان گارڈز کی پراسرار ہلاکتوں پر ہمارا قانون بے بس نظر آتا ہے۔

ذرائع کا دعویٰ ہے کہ کراچی پولیس نے سیکیورٹی گارڈ کمپنی کو خط لکھنے کا فیصلہ کر لیا ہے جس میں سیکیورٹی گارڈز کی ٹریننگ اور ٹک ٹاک سے روکنے کے حوالے سے ہدایات شامل ہوں گی۔آئیے سیکیورٹی گارڈز کی ٹک ٹاک ویڈیوز بناتے ہوئے جان گنوانے کے دونوں واقعات کا جائزہ لیتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے اور اس کا سدِ باب کیا ہوسکتا ہے؟ 

سیکیورٹی گارڈز کی ہلاکتوں کے واقعات 

تازہ ترین واقعہ کراچی کے علاقے گلشنِ معمار میں پیش آیا جہاں 20 سالہ سیکیورٹی گارڈ نے ایک اور سیکیورٹی گارڈ کو اپنی ویڈیو بنانے کیلئے کہا اور ایک رپیٹر اٹھا کر اپنے سینے پر رکھ لیا۔

نوجوان سیکیورٹی گارڈ خودکشی نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن سینے پر رکھے اسلحے کے بارے میں اسے علم تھا کہ وہ کام نہیں کرتا لیکن جب اس نے وہ بے کار اسلحہ چلایا تو اچانک وہی اسلحہ اس کی جان لے گیا۔ گولی چلی اور اس کی ویڈیو آج سوشل میڈیا پر وائرل ہے جسے دیکھنا کمزور دل کے افراد کا کام نہیں ہے۔

دوسرا واقعہ 9 روز قبل یعنی 21 نومبر کو پیش آیا تھا جس میں ایک 23 سالہ سیکیورٹی گارڈ گلستانِ جوہر میں ویڈیو بناتے ہوئے جان کی بازی ہار گیا۔

سلامت نامی یہ نوجوان پستول کے ساتھ ٹک ٹاک ویڈیو بنا رہا تھا جس کے چیمبر میں موجود گولی فائر ہونے کے بعد اس کی پیشانی پر لگی اور سر کے پچھلے حصے سے باہر نکل گئی۔ سلامت سندھ کے شہر گھوٹکی سے تعلق رکھتا تھا۔ 

پاکستان میں ٹک ٹاک ویڈیو اور اموات کے مزید واقعات 

قبل ازیں لاہور میں بھی ٹک ٹاک ویڈیو کے دوران فائرنگ ہوئی جس سے 1 نوجوان جاں بحق اور دوسرا زخمی ہوگیا، پولیس نے کہا کہ نوجوان دوست کے ساتھ ٹک ٹاک ویڈیو بنا رہا تھا کہ اس دوران گولی چل گئی اور نوجوان جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔

گولی داؤد نامی نوجوان کی آنکھ میں لگی تھی جو موقعے پر ہی دم توڑ گیا، داؤد کے ساتھی ٹک ٹاکر کو بھی بازو پر گولی لگ گئی تھی اور وہ زخمی ہوگیا تھا۔ 22 سے 25 سال کی عمر کے دونوں دوست جائیدادوں کی خریدوفروخت کام کرتے تھے۔

جون 2020ء کے دوران ایک 17 سالہ نوجوان بھی ٹک ٹاک ویڈیو بناتے ہوئے حادثاتی طور پر جاں بحق ہوا تھا۔ پولیس کے مطابق اسلحہ استعمال کرتے ہوئے ویڈیو بنانے والے نوجوان کی جان اپنی ہی گولی لگنے کے باعث ہوئی اور وہ موقعے پر جاں بحق ہو گیا۔ اسلحہ غیر قانونی تھا یا قانونی، یہ پتہ نہیں چل سکا۔

صوبہ پنجاب کے شہر ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ایک نوجوان لڑکی ویڈیو بنا رہی تھی۔ 22 سالہ یہ لڑکی ہاتھ میں پستول تھام کر ویڈیو بنا رہی تھی کہ اتفاقیہ گولی چلی اور لڑکی جاں بحق ہو گئی۔

واضح رہے کہ جنوری سے اگست 2020ء کے دوران پاکستان بھر میں ٹک ٹاک ویڈیوز بناتے بناتے 10 سے زائد نوجوان موت کی آغوش میں چلے گئے، زیادہ تر واقعات میں ٹک ٹاکرز پستول ہاتھ میں لے کر ویڈیوز ریکارڈ کرتے پائے گئے۔ 

دُنیا بھر میں ٹک ٹاکرز کی اموات اور خودکشی 

ایک عالمی ویب سائٹ نے رواں برس فروری کے دوران دعویٰ کیا کہ ٹک ٹاکرز کی اموات کے 41 واقعات دنیا بھر میں رونما ہوئے جن میں سے 9 کو خودکشی قرار دیا گیا تھا۔

مذکورہ ویب سائٹ (دی سن) یہ کہتی ہے کہ ٹک ٹاکرز نے جان بوجھ کر اپنی جان اِس لیے لی تاکہ لوگ انہیں مرتے ہوئے دیکھ سکیں۔

زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ کچھ ٹک ٹاکرز نے اِس لیے بھی اپنی جان لے لی کہ انہیں ٹک ٹاک استعمال کرنے سے روک دیا گیا تھا جس سے سوشل میڈیا کی بد ترین لت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

فروری کے دوران ہی ایک ایسا واقعہ ہوا جس میں ٹک ٹاکر نے خودکشی کر لی، ٹاک ٹاک نے وہ بات پولیس کوبتانے سے قبل 3 گھنٹے تک انتظار کیا، شاید اِس کی وجہ یہ ہو کہ مذکورہ ویڈیو وائرل ہوجائے اور اس کا کوئی فائدہ اٹھایا جا سکے۔ 

نوجوان ٹک ٹاکرز کی مزید اموات کا خدشہ 

غور کیا جائے تو ٹک ٹاک ویڈیوز بناتے ہوئے جان دینے والے تمام لوگ سیکیورٹی گارڈز نہیں ہیں بلکہ ان میں صرف 2 باتیں مشترک نظر آتی ہیں۔

اول یہ کہ یہ سب نوجوان تھے جنہیں ٹک ٹاک پر ویڈیو بنانے کا بے انتہا جنون تھا، اور ویڈیو بنا کر مقبول ہونا، ویڈیو وائرل کرنا اور عوام میں واہ وا اور داد حاصل کرنے کا شدید شوق انہیں کوئی اچھوتا اور منفرد کام کرنے پر مجبور کر رہا تھا۔

دوم یہ کہ تمام نوجوانوں کو کسی نہ کسی طرح اسلحہ دستیاب تھا، جیسے سیکیورٹی گارڈز اور دیگر نوجوانوں کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ محسوس ایسا ہوتا ہے کہ وہ پستول یا دیگر اسلحے کو کھلونا سمجھ کر اس سے کھیل رہے تھے اور کھیل کھیل میں گولی چل گئی۔

آج بھی ملک کے بے شمار نوجوان اسلحے کو ہاتھ میں لے کر اس سے کھلونے کی طرح کھیل رہے ہیں۔ آج بھی ٹک ٹاک ویڈیوز دھڑا دھڑ بن رہی ہیں اور ویڈیوز وائرل کرنے کا جنون انتہا کو پہنچا ہوا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سارے عوامل پاکستانی نوجوانوں کی مزید اموات کا خدشہ جنم دے رہے ہیں۔صرف دُعا ہی کی جاسکتی ہے کہ ایسی کوئی بات نہ ہو۔ 

رویہ کیا ہونا چاہئے؟ 

نوجوان نسل کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو مثبت سمت میں استعمال کرنا چاہیئے۔ سب کچھ ٹک ٹاک نہیں ہے۔ مقبولیت کے اپنے فوائد سہی لیکن یہ فوائد زندگی سے زیادہ اہم نہیں ہوسکتے۔

ملک کے بزرگ شہری جو اپنے بچوں اور نوجوانوں کو ٹک ٹاک پر ویڈیوز بناتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، انہیں بھی اپنی اولاد کو تربیت دینا ہوگی۔

بزرگوں کو چاہئے کہ نوجوانوں کو سمجھائیں کہ ٹک ٹاک کو مثبت سمت میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ آپ کے پاس جو ہنر ہے، وہ لوگوں کو سکھائیں لیکن یہ ہنر سیکیورٹی گارڈ کا نہیں ہونا چاہئے اور اگر ہو تو اسلحہ ہاتھ میں لے کر ہرگز نہ سکھائیں۔

اگر آپ بھی کوئی ٹک ٹاکر ہیں تو زندگی گنوانے کے تمام تر واقعات کو بار بار پڑھئیے اور یہ سمجھنے کی کوشش کیجئے کہ اسلحہ ہاتھ میں لے کر ویڈیو بنانا کتنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔

رہی خودکشی کی بات تو اسلام کے نزدیک یہ حرام ہے اور اگر معاشرتی اعتبار سے سوچئے تو اِس سے بڑا بزدلانہ اقدام کوئی نہیں کیونکہ زندگی جیسی نعمت کو انسان اپنے ہاتھوں سے ضائع کر لیتا ہے جس سے بے شمار فوائد اٹھائے جاسکتے تھے۔ 

Related Posts