بنیاد پرستی اور شدت پسندی

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

شدت پسندی اوربنیاد پرستی کوئی آج کل کی پیداوار نہیں بلکہ اس کی ایک مکمل تاریخ ہے جس پر ہمیں توجہ کے ساتھ کام کرنے اور اسے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ 

30 جنوری 2015ء کو میں ایک اشتہاری ایجنسی میں انٹرن کی حیثیت سے کام کر رہا تھا تو اس دوران ایک خبر نے مجھے ہلاکر رکھ دیا جب جمعہ کی نماز کے دوران ایک خود کش بمبار نے میرے آبائی شہر شکارپور میں ایک امام بارگاہ پر حملہ کیا جس میں 59 افراد ہلاک جبکہ 61 زخمی ہوئے۔ مجھے محرم کے دوران اس جگہ جانے اور سردیوں کے مہینوں میں یہاں راتیں گزارنا یاد تھا۔

میں نے سوچا کہ کیسے ایک طالبان خودکش حملہ آور نے سندھ کے ایک چھوٹے سے قصبے تک پہنچنے میں کامیاب ہوکر ایک امام بارگاہ پر حملہ کیا ہوگا۔ کیا یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ یہاں تک کہ چھوٹے چھوٹے شہر اور دیہات میں بھی مذہبی انتہا پسندی پھیل گئی ہے؟ ان دنوں عسکریت پسندی میں اضافہ ہورہا تھا اور دہشت گردپہلے ہی جنوبی پنجاب پہنچ چکے تھے جہاں پولیس پنجابی طالبان سے لڑ رہی تھی۔ یہ نام ہی میرے لئے چونکا دینے والا تھا اور میں سوچتا تھا کہ کیا اگلا نمبرسندھ کاہوگا؟۔

مجھے جلد ہی احساس ہوا کہ خودکش دھماکا اتنا چونکانے والا نہیں تھا جتنا لگتا ہے، 2013 میں ضلع گڑھی یاسین میں غازی غلام شاہ مری کے مزار پر ایک دھماکے کے نتیجے میں 2 افراد ہلاک اور 20 زخمی ہوگئے تھے۔ 2010 میں شکار پور کے قریب افغانستان میں نیٹو افواج کے لئے ایندھن لے جانے والے دو درجن سے زائد آئل ٹینکروں کو دہشت گردوں نے تباہ کردیا تھا۔

اس شہر میں مذہبی انتہا پسندی کی ایک طویل تاریخ تھی۔ مجھے جلد ہی پتہ چلا کہ بہت سے نوجوان لڑکے 1980 کی دہائی میں افغان جہاد میں بھی شریک ہوئے تھے۔ فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے مدرسوں کو بھاری مالی اعانت فراہم کی اور شکار پور میں بہت سے لوگوں کو بھی فنڈز ملتے ہیں۔ ان دنوں شہر کا ایک سب سے بڑا مدرسہ ان فنڈز کا وصول کنندہ تھا۔ تب سے شکار پور عسکریت پسندی اور مذہبی انتہا پسندی کا گڑھ رہا ہے۔ مذہبی انتہا پسندی میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ تارکین وطن کی آمد اور مدارس کا بے ضابطہ پھیلاؤ ہے۔

لیکن ہم اس مرحلے پر کیسے پہنچے؟ سندھ صوفیاکرام کی سرزمین تھی جہاں شاہ عبداللطیف بھٹائی آزادانہ گھومتے تھے اور لال شہباز قلندر نے امن اور مذہبی ہم آہنگی کا پیغام عام کیا۔ 2018 میں دہشت گردوں نے تصوف کو بھی نہیں بخشا اور لال شہباز قلندرکے مزار پر 80 عقیدت مندوں کو شہیدکیا۔ یہاں تک کہ مذہبی شخصیات بھی اس انتہا پسندی کا شکار رہی ہیں۔ 2014 میں جے یو آئی (ف) کے رہنما خالد محمود سومرو کو سکھر میں نامعلوم افراد نے گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔ اسی سال سڑک کے کنارے نصب بم کا نشانہ معروف مذہبی شخصیت سید حسین شاہ بخاری بنے جو خوش قسمتی سے بچ گئے لیکن ان کا پوتا اتنا خوش قسمت نہیں تھا۔ بے نظیر بھٹو اکثر ان سے فیض حاصل کرنے درگاہ حسین آباد آتی تھیں۔

آج تو ایسا لگتا ہے کہ حالات واپسی کے ایک نقطے پر پہنچ چکے ہیں۔ انتہا پسند مذہبی جماعتیں بشمول دہشت گردکی فہرست میں تنظیمیں آزادانہ طور پر فعال ہیں۔ کبھی تھر کے لاچار شہریوں کی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے امدادی سرگرمیاں کرکے خود کو چھپایا جاتا ہے اور ان فرقہ وارانہ تنظیموں کو پولیس کا تحفظ حاصل ہے۔ پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل ہے اور ہم سندھ میں شدت پسند رجحانات کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ہم نے جعلی تاریخ ، عدم برداشت اور عداوت کی تعلیم دی ہے جس نے امن اور ہم آہنگی کو جھنجھوڑ دیا ہے۔

پوری تاریخ میں سندھ مختلف ثقافتوں ، مذاہب اور تہذیبوں کا مرکزرہاہے لیکن حال ہی میں صوفیا کی سرزمین کو ایک نئے خطرے کا سامنا ہے۔ سندھ میں مذہبی انتہا پسندی کے عروج کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ہمیں معاشرے میں انتہاپسندی کو ختم کرنے سے پہلے بنیاد پرست عناصر کے خلاف کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔

Related Posts