اسلام آباد: پاکستان انجینئرنگ کونسل میں بدعنوانی عروج پر پہنچ گئی، ادارے میں بڑے پیمانے پر مالی وانتظامی بدانتظامیوں کاانکشاف ہواہے۔
تفصیلات کے مطابق کراچی دفتر کیلئے اراضی کی خریداری اور دفتر کی تعمیر میں گھپلے ہوئے، کرپشن پکڑے جانے کے ڈر سے سرکاری محکمہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان سے اپنا آڈٹ کرانے سے گریزاں ہیں۔
باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ کونسل کے ارکان اور افسران نے اپنی کمپنیاں بنارکھی ہیں جن کی منظوری راتوں رات دے دی جاتی ہے جبکہ دیگر کمپنیوں سے رجسٹریشن کیلئے رشوت طلب کی جاتی ہے، رشوت ادا نہ کرنے پر ان کا کیس لٹکا دیا جاتا ہے۔
باوثوق ذرائع کے مطابق گزشتہ کئی سالوں سے کراچی کے دفتر کا کوئی جامع اور حقیقی آڈٹ نہیں ہوا جو کہ متعلقہ قوانین کی خلاف ورزی ہے،کونسل کے ممبران افسران اور اہلکاروں کے اثاثوں کی جانچ پڑتال کا کوئی نظام سرے سے موجود نہیں ہے۔.
اس کے علاوہ سندھ میں ایک کی جگہ دو دو ایڈیشنل رجسٹرار ہیں لیکن رجسٹرار نے دونوں کوعضومعطل بنا کررکھ دیا اور تمام اختیارات اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈپٹی رجسٹرار ظفر کو قانون کے مطابق ترقی نہیں دی جاسکتی تھی لیکن سفارش کی بنیاد پر انہیں ڈپٹی رجسٹرار کے عہدے پر ترقی دے دی گئی تاہم اپنی غیر تسلی بخش کارکردگی کے باعث انکا پروبیشن تاحال جاری ہے اور انکی ترقی کی تصدیق نہیں ہو سکی۔
مزید ذرائع کا یہ کہنا ہے کہ پورے دفتر میں خواتین کے لیے الگ باتھ روم ہے اور نہ نماز پڑھنے کی جگہ مختص ہے. نااھلی کا یہ عالم ہے کہ بیسمنٹ پارکنگ کے لیے استعمال نہیں کی جاسکتی جس کی وجہ سے ملازمین اپنی گاڑیاں سڑک پر پارک کرنے پر مجبور ہیں۔
ریجنل دفتر شہر کے دور دراز علاقے میں واقع ہے جہاں پر عوامی ٹرانسپورٹ کا کوئی انتظام نہیں لیکن اس کے باوجود دفتر کی جانب سے خواتین کیلئے ٹرانسپورٹ کا انتظام نہیں کیا گیا۔
انتظامی افسران بالخصوص متعلقہ ڈپٹی رجسٹرار صنفی امتیازی سلوک اور جنسی ہراسانی مین فرق سے بالکل لاعلم نظر آئے. انہوں نے دفتر میں صنفی امتیازی سلوک کو جنسی ہراسانی کے متبادل قرار دیتے ہوئے خواتین کو انتہائی حد تک ہراسانی کا نشانہ بنایا ہے۔ اس حوالے سے جب ڈپٹی رجسٹرار ظفر سے بات کی گئی تو انہوں نے خواتین کے ساتھ اپنے دفتری روابط اور تعلقات کوانتہائی ڈھٹائی سے اپنا ذاتی معاملہ قرار دیااور کہا ہو سکتا ہے انہوں نے ان سے نکاح یا شادی کر رکھی ہو. یہ انکا شرعی اور قانونی حق ہے۔
اس معاملے کے بارے مزیدانکشاف ہوا ہے کہ ڈپٹی رجسٹرار صاحب مختلف بہانون سے خواتین کے گھر بھی جاتے تھے. اس سال کے ان مہینوں میں جب کرونا کی وجہ سے دفاتر بند تھے تو بھی خواتین کو دفتر بلایا جاتا تھا. مئی جون مین ان حالات میں ایک خاتون نے ڈپٹی رجسٹرار کی چیرہ دستیوں سے تنگ آکر اسلام آباد میں ایک انتہائی بارسوخ شخص کی سفارش سے اپنی ٹرانسفر اسلام آباد کروالی تھی. لیکن ظفر صاحب نے اس حکم پر عمل درآمد کرنے کے بجائے اس خاتون کو چند دفتری معاملات کی بناء پر اس قدر بلیک میل اور مجبور کیا کہ اس خاتون نے خود اپنی ٹرانسفر کو منسوخ کرنے کے لئے لکھ کر کہا. جن معاملات کی بناء پر اس خاتون کو مجبور کیا گیا ان مین سرفہرست سالانہ کارکردگی رپورٹ تھی جس کو ظفر نے لکھنا تھا.اس کے علاوہ اس خاتون کو پروفیشنل انجینیر کے امتحان مین فیل کرنے اور اسکا پروبیشن مزید بڑھانے اور جاری انکوائریون مین شامل کرنے کی دھمکیاں دی گئیں۔
یہ بھی پڑھیں: انجینئرنگ کونسل میں کنٹریکٹرز کو بھی رکنیت دی جائے، نعیم کاظمی