گزشتہ کئی ماہ سے جاری سیاسی کشیدگی کے بعد مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے اس شرط پر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بات چیت کا اشارہ کیا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت پہلے گھر بھیجا جائے اس کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بات کی جائیگی۔
ملک میں جاری موجودہ صورتحال کو دیکھ کر لگتا ہے کہ بلاول بھٹو کی جانب سے نواز شریف کے بیان کی مخالفت کرنے کے بعد پی ڈی ایم کے اندر پھوٹ پڑ گئی ہے، بلاول بھٹو نے کہا تھا کہ فوجی قیادت کا ذکر کرنا اتحاد کے ایجنڈے کا حصہ نہیں ہے لیکن کچھ دن بعد انہوں نے ایک قدم پیچھے ہٹاتے ہوئے کہا کہ کسی کو بھی نہیں روکا گیا اور عسکری قیادت کا نام لینا مسلم لیگ (ن) کا فیصلہ تھا۔ اس حکمت عملی کو بخوبی نبھایا گیا کیوں کہ پیپلز پارٹی فوج سے کوئی محاذ آرائی نہیں چاہتی ہے اور وہ عمران خان کی حکومت سے نمٹنے کے لئے زیادہ فکر مند ہے۔
پی ڈی ایم اپنا اگلا سیاسی اجتماع پشاور میں کرے گی۔ یہ تحریک انصاف کی حکومت کا مضبوط گڑھ ہے۔ مریم نواز نے فوج کے ساتھ ممکنہ مکالمے کا اشارہ کرکے تمام اسٹیک ہولڈرز کو راضی کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم اس میں پی ٹی آئی کی حکومت شامل نہیں ہوگی ۔یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اگر وزیر اعظم کو نظرانداز کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن کسی بھی طرح کی بات چیت پراتفاق کرتے ہیں تو حکومت کا کیا ردعمل ہوگا۔
فوجی قیادت سے توقع کی جارہی ہے کہ وہ قومی سلامتی کے امور پر پارلیمانی رہنماؤں کو بریف کریں گے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کے بعد اچانک یہ اجلاس منسوخ کردیا گیا تھا اور دوسری جماعتیں اس بات پر غور کررہی ہیں کہ کیا انہیں بریفنگ میں شرکت کرنا چاہئے۔
پی ڈی ایم یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ اپوزیشن کے درمیان اتحاد برقرارہے لیکن اس کے برعکس ہے، بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کے عبدالقادر بلوچ اور ثناء اللہ زہری جیسے رہنماؤں نے استعفیٰ دے دیا ہے جبکہ جے یو آئی (ف) کے ترجمان کو نواز شریف کے بیان کی مخالفت کرنے پر ہٹا دیا گیا ہے اورایسا دکھائی دیتا ہے کہ پی ڈی ایم کیلئے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانہ کی وجہ سے اپنے وجود کو برقرار رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔
مسلم لیگ ن نے یہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے کہ اس کی سیاست ایک بندگلی کی طرف جارہی ہے۔ مریم نوازکا دعویٰ ہے کہ یہ آگے کا راستہ ہے لیکن اس طرح کی داستانوں نے پاکستانی سیاست کی پیچیدہ دنیا میں شاذ و نادر ہی جگہ پائی ہے۔
بیان بازی اور ریلیوں کے علاوہ پی ڈی ایم نے عمران خان کی حکومت کو کوئی خاص چیلنج نہیں کیا ہے۔ فوج تک پہنچنے کیلئے مریم نواز نے ایک بڑی چال چلی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ آنیوالے دنوں میں اس کے کیا اثرات مرتب ہونگے۔