وزیرِ اعظم عمران خان کی کورونا ریلیف ٹائیگر فورس پر اس کے قیام سے لے کر اب تک اپوزیشن رہنماؤں اور دیگر سیاسی و سماجی شخصیات کی طرف سے تنقید جاری ہے جس سے اس کا قیام کسی حد تک متنازعہ سمجھا جاسکتا ہے۔
مخالفین کا کہنا ہے کہ اداروں کی موجودگی میں ٹائیگر فورس کو کورونا کے ریلیف آپریشنز، لوگوں کے گھروں میں کھانا بھیجنے، ٹڈی دل کنٹرول کرنے اور اب اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر معلومات حاصل کرنے کیلئے استعمال کرنا بذاتِ خود ایک متنازعہ عمل ہے۔
آئیے کورونا ریلیف ٹائیگر فورس کے قیام سے لے کر اب تک اس کے مختلف کاموں کا جائزہ لیتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا کورونا ریلیف ٹائیگر فورس کا قیام تحریکِ انصاف یا خود وزیرِ اعظم کی سیاسی ساکھ مضبوط کرنے کا ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے؟
کورونا ریلیف ٹائیگر فورس کا قیام
رواں برس کے آغاز میں ہی کورونا وائرس کے کیسز کے پیشِ نظر ملک بھر میں لاک ڈاؤن کی صورتحال شدید سے شدید تر ہوئی اور دیہاڑی دار طبقے سمیت مزدوری پیشہ افراد اور غریب افراد کے ساتھ ساتھ مڈل کلاس بھی پریشان کن حالات کا سامنا کرنے پر مجبور ہوئی۔
مارچ میں وزیرِ اعظم عمران خان نے کورونا ریلیف ٹائیگر فورس کے قیام کا فیصہ کیا جس کی رجسٹریشن اگلے ہی ماہ مکمل کر لی گئی۔واضح رہے کہ کورونا ریلیف ٹائیگر فورس ایک رضا کار تنظیم ہے جس کے کارکنان کو تنخواہ کے نام پر کچھ بھی نہیں دیا جاتا۔
کیا ٹائیگر فورس اپنا کام کر رہی ہے؟
سوال یہ نہیں کہ کیا ٹائیگر فورس اپنا کام ٹھیک طریقے سے کر رہی ہے یا نہیں بلکہ اس سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا ٹائیگر فورس کے نام پر کوئی فورس موجود بھی ہے اور کیا وہ واقعی اپنا کام کر رہی ہے؟
بلاشبہ حکومت نے تو یہ دعویٰ بارہا دہرایا کہ کورونا ریلیف ٹائیگر فورس کے رضاکار اپنا کام بخیر و خوبی سرانجام دے رہے ہیں تاہم عوام کے شکوے شکایات اور اپوزیشن کے بیانات کچھ اور ہی کہانی سناتے دکھائی دیتے ہیں۔
عوام الناس کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن ہو یا اسمارٹ لاک ڈاؤن یا پھر کراچی میں سندھ حکومت کا مائیکرو اسمارٹ لاک ڈاؤن ، ہمیں کورونا ریلیف ٹائیگر نامی فورس کہیں نظر نہیں آئی۔ لاہور کے رہائشی افراد کا کہنا ہے کہ کورونا ریلیف ٹائیگر فورس کے رضا کار کبھی ہمیں کوئی کام کرتے نظر نہیں آسکے۔
منظرِ عام سے غائب ہونے کی بڑی وجہ
اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ کورونا ریلیف ٹائیگر فورس کیلئے تنخواہ نام کی کوئی چیز موجود نہیں۔ حد یہ ہے کہ اگر ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا ہو تو اس کیلئے بھی کوئی فنڈز یا مالی امداد نہیں دی جائے گی۔ یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے بہت سے رضاکار کام ترک کردیتے ہیں۔
ہمارے حلقۂ احباب میں بھی کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو وزیرِ اعظم کی کورونا ریلیف ٹائیگر میں خوشی خوشی شریک تو ہوئے لیکن اس کے قواعد و ضوابط اور جیب ہلکی ہونے کے باعث پیچھے ہٹ گئے کیونکہ مفت کام تو ہر شخص کرسکتا ہے لیکن جیب سے پیسے بھر کر کام کرنا موجودہ مہنگائی کے دور میں دل گردے کا کام بن چکا ہے۔
سیاسی وابستگی کے الزامات اور تردید
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا کورونا ریلیف ٹائیگر فورس تمام تر سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہے یا اس پر تحریکِ انصاف کی اجارہ داری ہے؟ اس پر اپوزیشن کا الزام یہ ہے کہ کورونا ریلیف ٹائیگر فورس دراصل پی ٹی آئی اراکین اور رہنماؤں کی فورس ہے جو صرف اپنے ہی لوگوں کو نوازتی ہے۔
تاہم وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی برائے امورِ نوجوانان عثمان ڈار سمیت دیگر حکومتی ترجمانوں نے اپنے مختلف بیانات میں اِس الزام کی کھل کر تردید کی اور کہا کہ یہ ایک رضا کار تنظیم ہے جس کا کام تمام تر سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر مشکلات میں پھنسے ہوئے عوام کی مدد کرنا ہے۔
انتظامی معاملات پر اجارہ داری
کم از کم مہنگائی پر قابو پانا کورونا ریلیف ٹائیگر فورس کا کام نہیں ہے کیونکہ یہ خالصتاً ایک انتظامی معاملہ ہے جس پر یا تو وفاقی و صوبائی حکومتیں یا پھر ضلعی انتظامیہ قابو پاسکتی ہے، تاہم رمضان المبارک کے دوران بھی ٹائیگر فورس کو مختلف بازاروں میں زائد فروشی کی نگرانی پر لگایا گیا۔
کوئی دکاندار زائد ریٹس پر اشیاء فروخت کر رہا ہے یا نہیں، یہ دیکھنا بھی ایک انتظامی معاملہ ہے، پھر بھی حالیہ دنوں میں ہی خود وزیرِ اعظم نے کورونا ریلیف ٹائیگر فورس کو ہدایت کی کہ مختلف بازاروں میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کا جائزہ لیں۔
دوسری جانب دکاندار اور اپوزیشن رہنما اِس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ بعض رہنما کورونا ریلیف ٹائیگر فورس کے خلاف عدالت تک بھی جا پہنچے۔ تاجروں کا کہنا تھا کہ ہمیں ضلعی انتظامیہ ریٹ لسٹس فراہم نہیں کرتی اور اس پر ٹائیگر فورس ہم پر مسلط کی جاتی ہے کہ مال صحیح داموں پر بیچو۔ جب صحیح دام موجود ہی نہیں تو عملدرآمد کیسے ہوگا؟
ایس او پیز پر عمل درآمد بھی ٹائیگر فورس کا کام نہیں ہے، اس کے باوجود اسلام آباد، لاہور اور دیگر شہروں میں ٹائیگر فورس کو ایس او پیز پر عمل کی نگرانی پر بھی لگایا گیا۔
حکومت کو کیا کرنا چاہئے؟
غور طلب بات یہ ہے کہ اپوزیشن کی طرف سے کورونا ریلیف ٹائیگر فورس پر سیاسی وابستگی اور وزیرِ اعظم پر سیاسی فوائد حاصل کرنے کے الزامات مکمل طور پر درست قرار نہیں دئیے جاسکتے کیونکہ وزیرِ اعظم عمران خان کا کورونا ریلیف ٹائیگر فورس کے قیام کا فیصلہ کسی صورت بھی بد نیتی پر مبنی قرار نہیں دیا جاسکتا۔
وجہ یہ ہے کہ ملک بھر کا نوجوان طبقہ بے روزگاری اور لاک ڈاؤن کے باعث فراغت ہی فراغت کا شکار رہا، ایسے میں کورونا ریلیف ٹائیگر فورس کا قیام ایک زبردست اقدام قرار دیا جاسکتا تھا لیکن بد قسمتی سے حکومت خود ہی فورس کو اپنانے میں ناکامی کا شکارنظر آئی۔
اگر کورونا ریلیف ٹائیگر فورس کو حکومت ایک باضابطہ ادارہ بنائے جہاں کم از کم آمدورفت کے اخراجات ادا کیے جاتے ہوں اورچاہے بے حد معمولی تنخواہ بھی دی جاتی ہو تو ملک کا نوجوان طبقہ بے شمار ایسے کام کرسکے گا جو پہلے ممکن نہیں تھے اور سیاسی وابستگی کے الزامات بھی اپنی موت آپ مر جائیں گے۔