فیڈرل بورڈ آف ریونیو کا کہنا ہے کہ امسال ٹیکس کی مد میں اربوں روپے جمع کئے گئے ہیں جبکہ وفاقی حکومت کی طرف سے عوام کو ریلیف کے نام پر صفر کارکردگی کا مظاہرہ دیکھنا پڑ رہا ہے کیونکہ مہنگائی عروج پر پہن چکی ہے۔
سوال یہ ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان کی قیادت میں وفاقی حکومت آخر کیا کر رہی ہے؟ عوام تو دھڑا دھڑ ٹیکس دے رہے ہیں لیکن مہنگائی میں ہر گزرتے روز کے ساتھ مزید اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ آئیے ان تمام سوالات کے جوابات تلاش کرتے ہیں۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو کا اعلان
رواں مالی سال کے دوران فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے اعلان کیا ہے کہ ادارے نے 1 کھرب سے زائد ریونیو حاصل کیا۔ رواں برس کی پہلی سہ ماہی کی تفصیلات جاری کرتے ہوئے ایف بی آر نے بتایا کہ مجموعی طور پر 1 ہزار 4 ارب کا نیٹ ریونیو حاصل کیا گیا۔
ایف بی آر کے اعلامیے کے مطابق ہدف 9 کھرب 70 ارب روپے مقرر تھا جس میں 34 ارب کا اضافہ حاصل ہوا۔ انکم ٹیکس کی مد میں 358 ارب روپے حاصل کیے گئے۔
اعلامیے کے مطاق سیلز ٹیکس کی مد میں 426 ارب، ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں 56 ارب، کسٹمز ڈیوٹی کی مد میں 164 ارب جبکہ گراس اور نیٹ ریونیو 1 کھرب سے زائد اکٹھا کیا گیا۔
کل گراس ریونیو 1 ہزار 52 ارب بتایا گیا، 48 ارب روپے کے ریفنڈز جاری ہوئے، گزشتہ برس یہ ریفنڈز 26 اعشاریہ 5 ارب روپے تھے۔
اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ
ملک بھر میں مہنگائی تیزی سے بڑھ رہی ہے جس سے عوام کو آٹے دال کا بھاؤ جھیلنا مشکل ہو گیا ہے۔ گزشتہ ماہ کے آخری 7 روز کے دوران کم و بیش 24 اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
قومی ادارۂ شماریات کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق رواں برس جولائی سے ستمبر کے دوران مہنگائی کی شرح 8.85 فیصد ریکارڈ کی گئی تاہم ستمبر کے دوران ہی یہ شرح 9.04 فیصد تک جا پہنچی۔
صرف 30 روز کے دوران سبزیوں کی قیمتوں میں 35 سے 40 فیصد کا اضافہ ہوا یعنی جو سبزی آپ 100 روپے فی کلو خرید رہے تھے وہ 135 سے 140 روپے فی کلو فروخت ہونے لگی۔
مجموعی طور پر 24 اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں تشویشناک اضافہ ہوا۔ ٹماٹر کی قیمت میں 9 روپے 88 پیسے فی کلو کا اضافہ ہوا اور ٹماٹر اوسطاً 110 روپے 22 پیسے فی کلو فروخت ہونے لگا۔ پیاز کی قیمت میں 11.55 روپے کا اضافہ ہوا۔
مونگ کی دال میں 3 روپے 19 پیسے کا اضافہ ہوا جس سے اوسط قیمت 243 روپے 52 پیسے پر جا پہنچی۔ زندہ مرغی کی قیمت میں 4 روپے فی کلو جبکہ انڈوں کی قیمت میں 4 روپے فی درجن کا اضافہ نوٹ کیا گیا۔
چینی اور آٹے کی قیمتیں بھی بڑھیں، ساڑھے 11 کلو ایل پی جی گیس سلنڈر کی قیمت میں 10 روپے کا اضافہ ہوا۔ دالوں، گھی، گوشت، گڑ، چاول اور خشک دودھ کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا۔
صرف 1 ہفتے کے دوران 3 اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کم ہوئیں جن میں کیلا اور دال ماش شامل ہیں۔ چائے، مٹن اور تازہ دودھ سمیت 24 اشیائے ضروریہ کی قیمتیں متوازن رہیں۔
یوٹیلٹی اسٹورز کی صورتحال
غریب عوام کا جینا محال ہے کیونکہ جب اوپن مارکیٹ میں اشیائے ضروریہ مہنگی دیکھ کر یوٹیلٹی اسٹورز کا رُخ کرتے ہیں تو وہاں بھی انہیں کوئی اچھی خبر سننے کو نہیں ملتی۔
گزشتہ ماہ ملک بھر کے مختلف یوٹیلٹی اسٹورز سے آٹا، گھی اور چینی غائب رہے، عوام کو یوٹیلٹی اسٹور جیسی سہولت کے ہوتے ہوئے بھی مہنگے داموں یہی اشیاء بازار سے خریدنی پڑیں۔
دوسری جانب یوٹیلٹی اسٹورز حکام نے کہا کہ عام بازار میں یہ اشیائے ضروریہ مہنگی ہیں، یوٹیلٹی اسٹورز پر سستی ہونے کے باعث دستیابی میں مسائل کا سامنا ہے۔ عوام کی سہولت کیلئے اقدامات اٹھا رہے ہیں۔
آٹے کی قیمتیں اور درآمدی گندم
بلا شبہ وزیرِ اعظم عمران خان کو مہنگائی کا سامنا کرتے ہوئے سسکتے بلکتے عوام کی تکالیف کا کچھ نہ کچھ اندازہ تو ضرور ہے جس کے ازالے کیلئے یوکرین سے گندم درآمد کرے کا فیصلہ کیا گیا۔
تاہم یوکرین سے درآمد کی گئی ہزاروں میٹرک ٹن گندم بھی مہنگائی کے جن کو قابو میں نہ کرسکی۔ گندم سے بھرے 2 جہاز اگست سے ستمبر کے دوران پاکتان پہنچے جن میں ہزاروں ٹن گندم موجود تھی۔
ماہِ ستمبر کے دوران ڈھائی نمبر چکی کے آٹے کی ایکس مل میں قیمت 56 روپے فی کلو جبکہ ریٹیل 57 روپے فی کلو رہی۔ دوسری جانب فائن آٹا ایکس مل 60 روپے جبکہ بازار میں 63 سے 70 روپے فی کلو دستیاب رہا۔
چند اہم سوالات
ہزاروں ٹن گندم کہاں جارہی ہے؟ عوام کے خون پسینے کی کمائی جو انکم ٹیکس سمیت مختلف النوع متعدد اقسام کے ٹیکسز کی مد میں حکومت کی جیب میں جاتی ہے، وہ آخر عوام کے کام کیوں نہیں آتی؟
بلاشبہ مہنگائی پیدا کرنے والا ذخیرہ اندوز مافیا مضبوط ہے لیکن حکومت کی بھاری بھرکم مشینری، اختیارات کی لمبی چوڑی فہرست اور قانون نافذ کرنے والے ادارے آخر کس دن کام آئیں گے؟
مہنگائی اگر ہر گزرتے روز کے ساتھ بڑھتی ہی چلی جائے گی تو احساس پروگرام کے ذریعے جن مستحقین کی مدد کی جا رہی ہے، کیا ان کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوگا؟ اگر ہوگا تو حکومت نے ان مستحقین کو قومی دھارے میں لانے کیلئے زکوٰۃ کا پیسہ تقسیم کرنے کے علاوہ کیا اقدامات کیے ہیں؟
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ مہنگائی میں اضافے پر اضافے کا سلسلہ آخر کب ختم ہوگا؟اور ایسے ہی بے شمار دیگر سوالات ہیں جن کے جوابات جاننے کیلئے پاکستان کے عوام بے چین نظر آتے ہیں۔
عزمِ مصمم
تحریکِ انصاف کی وفاقی حکومت میں وزیرِ اطلاعات شبلی فراز نے گزشتہ ماہ بیان دیا کہ حکومت مہنگائی میں کمی کیلئے پوری کوشش کر رہی ہے، مہنگائی میں کمی ہماری اوّلین ترجیح ہے۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح حکومت نے کورونا وائرس جیسی عالمی وباء کو شکست دی، اسی طرح مہنگائی کو بھی شکست دیں گے۔
محسوس ایسا ہوتا ہے کہ حکومت مہنگائی کے خاتمے کیلئے درونِ خانہ ہی سہی، کچھ نہ کچھ کام ضرور کر رہی ہے۔ پھر بھی مہنگائی میں پسے ہوئے عوام کا وزیرِ اعظم سے مطالبہ ہے کہ مہنگائی کو ختم کرنے کیلئے اقدامات میں تیزی لائی جائے تاکہ تکلیف دہ شب و روز کا سامنا کرنے والے پسماندہ طبقے کے دکھوں کا کچھ مداوا ہوسکے۔