پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین کی آج 32ویں سالگرہ ہے جبکہ پی پی پی کی بنیاد رکھنے والا سیاسی خانوادہ ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر بلاول بھٹو زرداری تک قومی تاریخ میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کو اگر ہم ملکی تاریخ کا اہم ترین سیاسی شہید قرار دیں تو بے جا نہ ہوگا جبکہ بلاول کی والدہ بے نظیر بھٹو جنہیں 2007ء میں شہید کیا گیا، ملک کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم تھیں۔
دوسری جانب اگر ہم بلاول کے والد کی بات کریں تو آصف علی زرداری صدرِ مملکت رہ چکے ہیں اور اب بھی پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین کی حیثیت سے ملک کی بااثر ترین شخصیات میں شامل ہیں۔
آئیے بلاول بھٹو زرداری کے حالاتِ زندگی سے آج کا سیاسی تجزیہ شروع کرتے ہیں جو ان کی سیاست، ذاتی زندگی اور پیپلز پارٹی جیسی اہم سیاسی جماعت کے تاریخی سفر کی روداد سے ہوتا ہوا آج کے سیاسی منظر نامے اور اے پی سی تک جائے گا۔
بلاول بھٹو زرداری کے حالاتِ زندگی اور طلبہ سیاست
اگر ہم یہ کہیں کہ بلاول بھٹو زرداری منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوئے تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ جب چیئرمین پیپلز پارٹی پیدا ہوئے تو کم و بیش اُسی وقت سے ہی انہیں پیپلز پارٹی کا چیئرمین اور آئندہ وزیرِ اعظم مانا جانے لگا۔
سندھ کے صوفی شاعر مخدوم بلاول بن جام حسن سمو کے نام پر بلاول بھٹو کا نام رکھا گیا جو 10ویں صدی ہجری میں سندھ کے ارغون حکمران کے ہاتھوں کوہلو میں پس کر قتل کردئیے گئے۔
کراچی کے نجی ہسپتال میں 21 ستمر 1988ء کو جنم لینے والے بلاول بھٹو زرداری جب 3 ماہ کے تھے تو ان کی والدہ بے نظیر بھٹو شہید مسلم دُنیا کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم بن کر تاریخِ انسانی میں سنہری حروف سے اپنا نام رقم کروا چکی تھیں۔
جب بے نظیر دوسری بار وزیرِ اعظم بنیں تو بلاول بھٹو اسکول آنے جانے لگے۔ کراچی گرامر اسکول اور فروبلس انٹرنیشنل اسکول اسلام آباد وہ ادارے ہیں جہاں سے بلاول نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔
دبئی کے بہترین اسکولز میں شمار ہونے والے راشد پبلک اسکول میں بھی بلاول کی تعلیم جاری رہی جبکہ اس دوران بے نظیر بھٹو نے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کررکھی تھی۔
بعد ازاں بلاول بھٹو نے برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کے کرائسٹ چارج کالج سے جدید تاریخ اور سیاست کے شعبے میں بی اے آنرز کی سند حاصل کی۔ دبئی اور برطانیہ دونوں جگہ بلاول بھٹو زرداری کی سیاسی صلاحیتیں کھلنے لگی تھیں۔
طلبہ یونینز میں سرگرم رہنے والے بلاول بھٹو زرداری کو اوائلِ عمر سے یہ بات معلوم تھی کہ انہیں آگے چل کر سیاست میں قدم رکھنا ہے اور ملک کا اہم ترین عہدہ حاصل کرکے وزیرِ اعظم بننا ہے جس کیلئے جدوجہد آج تک جاری ہے۔
مستقبل کے وزیرِ اعظم کے مختلف شوق
ہر انسان کو زندگی میں کوئی نہ کوئی بات اچھی یا بری لگتی ہے اور کچھ ایسی عادات ہوتی ہیں جو اس کی شخصیت کا حصہ بن جاتی ہیں جنہیں ہم شوق کا نام دیتے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کو کھیل میں نشانے بازی، تیراکی اور کرکٹ کا شوق ہے۔
کرکٹ کے ساتھ ساتھ بلاول بھٹو زرداری گھڑ سواری بھی اچھی کر لیتے ہیں۔ تائیکوانڈو کراٹے میں مستقبل کے وزیرِا عظم نے بلیک بیلٹ حاصل کررکھی ہے۔ کھانے میں انہیں مونگ کی دال اور بھنڈی بہت مرغوب ہے۔
بعض نیوز رپورٹس کے مطابق بلاول بھٹو زرداری فلم بینی اور ڈرامے دیکھنے کا شوق بھی رکھتے ہیں۔ایک نجی ٹی وی چینل نے ان پر یہ الزام بھی لگایا کہ عینک والا جن نامی ڈرامہ جو بے حد کم اقساط پر مشتمل تھا بلاول کی فرمائش پر کافی عرصے تک جاری رہا۔
مذکورہ نجی ٹی وی چینل نے دعویٰ کیا کہ بلاول بھٹو زرداری وقت کی وزیرِ اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے صاحبزادے تھے جس کے پیشِ نظر سرکاری ٹی وی چینل (پی ٹی وی) کو عینک والا جن نامی ڈراما طویل کرنا پڑا۔
عملی سیاست میں بلاول بھٹو زرداری کا کردار
سن 2011ء میں تعلیم کی تکمیل کے بعد بلاول بھٹو زرداری وطن واپس آ گئے اور عملی سیاست میں قدم رکھ دیا۔ اگلے ہی سال پیپلز پارٹی نے کراچی میں ایک بہت بڑا جلسہ منعقد کیا جہاں بلاول بھٹو زرداری ایک بڑے سیاسی لیڈر بن کر اُبھرے۔
قبل ازیں 2008ء سے 2013ء تک قومی حکومت میں رہنے والی پیپلز پارٹی صرف صوبہ سندھ میں ہی اقتدار پر فائز ہوسکی تھی جس پر پیپلز پارٹی کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا تھا، تاہم بلاول کی آمد سے ایک نئی امید پیدا ہوئی۔
دو سال بعد سابق صدر آصف علی زرداری نے بلاول بھٹو زرداری کو پیپلز پارٹی کا چیئرمین بنا دیا اور خود شریک چیئرمین کہلانے لگے جو ملکی تاریخ میں کسی بھی سیاسی جماعت کی طرف سے ایک منفرد سیاسی عہدہ قرار دیا جاسکتا ہے۔
دوسری جانب جب بلاول بھٹو چیئرمین بنے تو پیپلز پارٹی پر نئے رُخ کے ساتھ تنقید ہونے لگی کیونکہ جمہوریت کا دعویٰ کرنے والی پی پی پی پر موروثی سیاست کی مہر لگ چکی تھی۔ پیپلز پارٹی رہنماؤں نے اس کے مختلف جواز بھی تراشے تاہم یہ مہر کبھی مٹ نہ پائی۔
پیپلز پارٹی کے کامیاب جلسے اور بلاول کی قیادت
سیاسی رہنما چاہے کوئی بھی ہو، عوام اسے کتنی اہمیت دیتے ہیں، یہ بات صرف عوامی جلسوں سے ظاہر ہوتی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کے جلسے زیادہ تر کامیاب ہیں کیونکہ عوام کا جمِ غفیر ملک بھر سے ایسے جلسوں میں شریک ہوتا ہے۔
آج سے 6 سال قبل یعنی 2014ء میں بلاول بھٹو نے کراچی کے باغِ قائد میں جلسے میں شرکت اور تاریخی تقریر کی۔ 2 سال بعد کوٹلی اسٹیڈیم میں آزاد کشمیر کے عوام سے خطاب کیا جس میں پی پی پی کے جیالے ہزاروں کی تعداد میں شریک ہوئے۔
بعد ازاں مئی 2016ء میں بلاول نے میرپور کرکٹ اسٹیڈیم کو اپنے جلسے کیلئے منتخب کیا۔ پی پی پی رہنماؤں کے مطابق یہ پاکستانی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ تھا۔ اگست 2017ء کو بلاول نے چترال کے پولو گراؤنڈ میں بھی جلسہ کیا۔
چترال کے جلسے میں میڈیا رپورٹس کے مطابق 60 ہزار سے زائد افراد شریک ہوئے تاہم سن 2018ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کوئی واضح اکثریت حاصل نہ کرسکی اور تحریکِ انصاف نے میدان مار لیا۔ بہرحال بلاول بھٹو زرداری مستقبل میں وزارتِ عظمیٰ کیلئے پر امید نظر آتے ہیں جسے ایک اہم قائدانہ خوبی قرار دیا جاسکتا ہے۔
گزشتہ روز کی اے پی سی اور بلاول بھٹو زرداری
ملکی تاریخ میں گزشتہ روز کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) اس لحاظ سے اہم رہی کہ یہاں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری میزبان تھے جس کے دوران مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد اور سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے بھی خطاب کیا۔
یہاں بیشتر سیاسی رہنماؤں نے اہم تقریریں کیں اور حکومتِ وقت کے خلاف بڑے بڑے بیانات دئیے جن کی تفصیل خبروں میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے تاہم بلاول بھٹو زرداری نے سیاسی تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپوزیشن کو اتحاد کا درس دیا۔
اپنے خطاب کے دوران بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ حزبِ اختلاف کو چاہئے کہ ہم حقیقی جمہوریت لانے کا مطالبہ کریں۔ ایک ایسا اتحاد قائم کریں جس کی بنیاد میثاقِ جمہوریت پر رکھی گئی ہو۔
اپوزیشن اے پی سی کے میزبان بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ عوام کو تحریکِ انصاف کی وفاقی حکومت کے عذاب سے نجات دلانا ہمارا اہم مقصد ہے۔ اگر ہم عوامی نمائندے کے طور پر ایوان آزاد نہیں کرا سکتے تو عوام کو کیسے آزادی دلائیں گے؟
مجموعی تاثر
بطور سیاسی رہنما اور مستقبل کے وزیرِ اعظم کے، بلاول بھٹو زرداری کو ابھی بے حد لمبا سیاسی سفر طے کرنا ہے کیونکہ سیاست کے میدان میں مشکلات اور مصائب کسی لیڈر کو کامیاب رہنما اور چوٹی کا قائد بناتے ہیں۔
ناقدین کے مطابق بلاول بھٹو زرداری کوئی زیرک سیاسی رہنما نہیں ہیں، انہیں وقت اور حالات سے سیاسی تدبر، حکمتِ عملی اور ملکی سطح کے معاملات کو سمجھنے کیلئے سیکھنے کے عمل سے ایک لمبے عرصے تک گزرنا ہوگا۔