ایک حدیث کے مطابق نبئ آخر الزمان ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ دنیا میں چار حقوق کے علاوہ ابنِ آدم کا کسی اور چیزپر اتنا حق نہیں۔ ایک گھر جس میں وہ رہ سکے، اپنے بدن کو چھپانے کیلئے کپڑا، روٹی اور پانی۔ (ترمذی شریف)
قرآنِ پاک میں سورۃ المعارج میں ارشاد ہوتا ہے کہ جن کے مالوں میں مانگنے والوں (بھکاریوں اور فقیروں) اور سوال سے بچنے والوں (جو خود نہیں مانگتے یا انہیں قانون یا معاشرتی روایات نے مانگنے سے روک رکھا ہے) کا بھی مقررہ حصہ موجود ہے ۔
عوام کیلئے یہ جاننا ضروری ہے کہ ان کے مال میں دیگر افراد کا حصہ موجود ہے۔ جو کھلے عام مانگتے پھرتے ہیں اور جو نہیں مانگتے، سب کیلئے۔ اگر آپ کسی ایسے شخص کو تلاش نہیں کرسکتے جو مانگتا ہو تو اب یہ آپ کا فرض ہے کہ ایسے لوگوں کو تلاش کیجئے جنہیں مدد کی ضرورت ہو تاکہ ان کی ضرورتوں کو بھی پورا کیا جاسکے۔
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مسلمان تین چیزوں میں (ایک دوسرے کے)شراکت دار ہیں۔ پانی، چراگاہ اور آگ جبکہ ان کی قیمت غیرشرعی ہے۔
یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ نبئ مکرم ﷺ کے ارشاد سے مراد کسی اسٹور میں فروخت کیلئے رکھا گیا پانی نہیں بلکہ کسی صاف ستھری ندی یا دریا کا پینے کے قابل پانی ہے۔ اس سے یہ واضح ہوگیا کہ کوئی بھی شخص یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ کوئی ندی نالا جس میں پینے کا پانی موجود ہے، اس پر صرف اسی کا یا اس کے اہلِ خانہ کا حق ہے اور دیگر کو اس سے محروم کردے یا ان سے پانی کے عوض رقم طلب کی جائے۔
سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کی حدیث مطابق اللہ تعالیٰ اس شخص پر لعنت فرماتا ہے جس کے پاس پھلوں ، سبزیوں اور پانی سے مالا مال قطعۂ اراضی یا پلاٹ ہو اور وہ لوگوں کو بھوکا اورپیاسا رکھے۔
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے پانی پر زیادہ زور دیا ہے۔ علماء کے مطابق پانی کو آلودہ کرنا یا روکنا سب سے بڑے گناہوں میں سے ایک ہے۔ اسلام میں پانی پر حق بے حد واضح انداز میں بیان کیا گیا ۔قرآن پاک کی ایک آیت میں فرمایا گیا کہ زکوٰۃ غریب اور ضرورت مند پر خرچ کرو جس پر علماء نے تفسیر میں پانی، خوراک، کپڑے اور مکان کا ذکر تواتر سے کیا ۔ عموماً پانی کا ذکر سب سے پہلے ملتاہے۔
حضورِ اکرم ﷺ نے ایک حدیث میں عوام کی جسمانی اور روحانی ضروریات پورا کرنے کی ترغیب دی اور فرمایا کہ جو کوئی پانی کا کنواں تعمیر کرتا ہے ، اس سے کوئی انسان، جن، پرندہ یا جنگلی درندہ پانی پیتا ہے تو اللہ تعالیٰ روزِ قیامت اس کا اجر عطا فرمائے گا اور جو شخص ایک مسجد تعمیر کرتا ہے جس کی وسعت چاہے کسی پرندے کے گھونسلے کے برابریا اس سے کم ہی کیوں نہ ہو، اللہ تعالیٰ اس کیلئے جنت میں ایک گھر تعمیر فرمائے گا۔
آقائے نامدار ﷺ نے ایک مسجد میں ایک غریب خاتون کیلئے خود ایک گھر تعمیر فرمایا۔ آپ ﷺ نے صفہ کی تاریخی درسگاہ میں زیرِ تعلیم صحابہ کیلئے بھی گھر کی تعمیر کی جو غریب اور نادار تھے اور اپنے لیے گھر کے متحمل نہیں ہوسکتے تھے، لہٰذا وہ لوگ مسجد کی عقبی سمت میں رہائش پذیر ہوئے۔ رسولِ خدا ﷺ ان کے ساتھ بیٹھتے، گفتگو فرماتے، اپنے کھانے اور پانی میں بھی انہیں شریک فرمایا کرتے تھے۔
پروردگارِ عالم کی آخری الہامی کتاب قرآنِ کریم میں گلی کے بچوں کی اصطلاح بے گھرافراد کیلئے استعمال ہوئی۔ گھرنہ ہونا والدین نہ ہونے سے ملتی جلتی محرومی ہوتی ہے۔ جن لوگوں کا کوئی گھر نہیں ہوتا، وہ خود کو بعض اوقات یتیم بھی محسوس کرتے ہیں۔ اگر آپ بے گھر افراد کو گھر مہیا نہیں کرسکتے تو ان کا ذہنی دباؤ اور پریشانی کم کرنے کیلئے جو کچھ ممکن ہوسکے، ضرور کیجئے۔
رہائش کے بعد رسولِ اکرم ﷺ نے لباس کی اہمیت کو بیان فرمایا۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے آخری نبی ﷺ سےجس سائل اور محتاج نے پہننے کیلئے کپڑوں کا سوال کیا، آپ ﷺ نے اپنے جسم سے اتار کر اسے عطا کردئیے۔
نبی آخر الزمان ﷺ نے ایک غیر مسلم قبیلہ دیکھا جنہوں نے اپنے جسم (جانوروں کی) کھالوں سے ڈھانپ رکھے تھے ، لوگ ان کی مدد کیلئے آگے نہیں بڑھ رہے تھے جس پر وہ قبیلہ ناراض نظر آتا تھا۔ آپ ﷺ نے صحابہ کو حکم دیا کہ انہیں کپڑے مہیا کیے جائیں۔ شریعتِ مطہرہ نے مسلمانوں کو غلاموں تک کیلئے ایسے ہی حقوق دینے کا پابند بنایا۔ ارشاد ہوا کہ غلاموں کو بھی ایسے ہی کپڑے پہناؤ اور ایسا کھانا کھلاؤ جیسا کہ خود تمہیں میسر ہے۔
علمائے اسلام فرماتے ہیں کہ کپڑے دولت اور معاشرتی حیثیت کا اہم مظہر ہوتے ہیں جنہیں بنیادی انسانی حقوق مہیا کرنے کا حکم دے کر شریعتِ اسلامیہ نے ایک نئے طرزِ معاشرت کی بنیاد رکھ دی۔
خلیفہ ہارون الرشید کی اہلیہ زبیدہ اپنے اہلِ خاندان میں سب سے زیادہ سخی خاتون مشہور تھیں۔ انہوں نے بغداد سے مکہ تک 1 ہزار 200 کلومیٹر طویل سڑک تعمیر کروائی۔ جو لوگ اس علاقے سے آتے جاتے تھے انہیں سفر مشکل لگتا تھا جو اب سڑک کا استعمال کرسکتے تھے۔
وقت کے امیر المؤمنین (خلیفہ ہارون الرشید) کی اہلیہ کو خاتونِ اول کی حیثیت حاصل تھی جس نے سڑک کو پختہ کروا دیا تاکہ لوگ آسانی سے سفر کرسکیں۔ انہوں نے راستے میں 40 اسٹیشنز تعمیر کروائے جن میں مسافروں کیلئے پناہ گاہیں، جانوروں کیلئے رہائش اور ہر 10 سے 15 کلومیٹر کے فاصلے پر کنویں موجود تھے۔
خاتونِ اول (زبیدہ) نے تالاب بنوائے، سرائے اور 50 سے زائد مساجد بھی تعمیر کروائیں، اس کے علاوہ سکیورٹی پوسٹس اور ایسے مینار تعمیر کروائے جن سے مسافروں کے تاریک راستوں میں روشنی کی جاتی تھی۔ شاہراہِ زبیدہ کے نام سے یہ سڑک کم و بیش 1 ہزار برس تک خاتونِ اول کی موت کے بعد بھی عوام کے کام آتی رہی۔
اگر آپ حج و عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں تو آجج بھی یہ سڑک آپ کو کہیں نہ کہیں ضرور نظر آئے گی۔
جنابِ سعد رضی اللہ عنہ ایک حدیث میں فرماتے ہیں کہ میری والدہ انتقال کر گئیں اور میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے پوچھا کہ میں ان کیلئے بہترین صدقہ کیا دوں؟ رسول اللہ ﷺ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ پانی۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے پانی کا ایک کنواں تعمیر کروا کر اپنی والدہ کے ایصالِ ثواب کیلئے وقف کردیا۔
آخر میں حسبِ روایت میں شیخ عمر سلیمان کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اِس تحریر کیلئے معلومات اور رہنمائی فرمائی کیونکہ یہ کالم ان کی سماجی انصاف پر مرتب کی گئی 40 احادیث سے ماخوذ ہے۔
میری اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ شیخ عمر سلیمان کی اسلام کیلئے خدمات پر انہیں اجرِ عظیم عطا فرمائے۔ اوپر جو کچھ بھی میں نے اچھا لکھا ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ کی عطا سے ممکن ہوا جبکہ تمام تر غلطیاں میری بشری کوتاہی کا نتیجہ ہیں۔