تربت میں شاہینہ شاہین کا قتل اور ملک بھر میں نظامِ انصاف کی حالتِ زار

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

تربت میں شاہینہ شاہین کا قتل اور ملک بھر میں نظامِ انصاف کی حالتِ زار
تربت میں شاہینہ شاہین کا قتل اور ملک بھر میں نظامِ انصاف کی حالتِ زار

صوبہ بلوچستان کے شہر تربت میں معروف ٹی وی اینکر شاہینہ شاہین کو رواں ماہ 5 ستمبر کے روز کسی نے گولی مار کر قتل کر دیا جس کے بعد انہیں زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا تاہم بعد میں ان کے شوہر کو قتل کے مقدمے میں نامزد کردیا گیا۔

پولیس نے قتل کے اگلے ہی روز مقتولہ شاہینہ شاہین کو ہسپتال پہنچانے والے شخص کا نام محراب گچکی بتایا جو شاہینہ شاہین کو زخمی حالت میں ہسپتال لانے کے بعد فرار ہو گئے۔ شاہینہ شاہین بلوچ کے قتل کا مقدمہ مرحومہ کے ماموں احمد علی کی مدعیت میں تربت تھانے میں درج ہے۔شاہینہ شاہین کو 3 گولیاں لگی تھیں۔ 

ایف آئی آر کے متن کے مطابق محراب گچکی ہی شاہینہ شاہین کے شوہر ہیں جن سے مقتولہ نے 5 ماہ قبل شہرِ قائد میں کورٹ میرج کی جبکہ شاہینہ شاہین کے شوہر نے ہی تربت کے علاقے پی ٹی سی ایل کالونی میں انہیں پستول کی گولی سے قتل کردیا۔اب تک ملزم کی گرفتاری عمل میں نہیں لائی جاسکی۔

آئیے شاہینہ شاہین کے بارے میں کچھ حقائق پر نظر ڈالتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ انہیں قتل کرنے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ پاکستان میں خواتین اور صحافی طبقہ اتنا غیر محفوظ کیوں ہے؟ اور ملک میں پولیس اور نظامِ انصاف کی حالتِ زار کا جائزہ لیتے ہیں۔

شاہینہ شاہین کا تعارف

معروف ٹی وی اینکر شاہینہ شاہین کا تعلق تربت سے ہے جو  بلوچستان میں ایران سے منسلک سرحدی ضلعے کیچ کا ہیڈ کوارٹر کہا جاسکتا ہے۔ تربت سے ہی شاہینہ شاہین کو ابتدائی تعلیم دلائی گئی جس کے بعد شاہینہ شاہین نے یونیورسٹی آف بلوچستان سے فائن آرٹس کی ڈگری   حاصل کی۔وہ 5 بہنوں میں سے 1 تھیں جن کا کوئی بھائی نہیں تھا۔ 

خاتون صحافی شاہینہ شاہین نے 2 سال قبل 2018ء میں بی ایس فائن آرٹس میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔ ایک سال بعد انہوں نے بلوچی زبان میں ماسٹرز کیا جس میں انہیں فرسٹ پوزیشن ملی۔ صحافی کے طور پر شاہینہ شاہین ایک بلوچی میگزین دزگہار یعنی سہیلی میں ایڈیٹر (مدیرہ) کے فرائض بھی سرانجام دیتی رہیں۔

صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں شاہینہ شاہین نے دورانِ تعلیم پاکستان ٹیلی ویژن (بولان) کے مارننگ شوز کی میزبانی کی جو بلوچی زبان میں ہوا کرتے تھے۔ فائن آرٹس کے آخری سال میں طلباء و طالبات کے فن پاروں کی نمائش  میں شاہینہ شاہین کی پینٹنگز کو بھرپور پذیرائی ملی۔

مصورہ کے ذاتی نظریات 

نمائش کے دوران ہی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شاہینہ شاہین نے کہا کہ بلوچستان میں خواتین بہادر ہیں جنہیں خاندان مدد کرے تو وہ سب کچھ کرلیتی ہیں۔ ان کی صلاحیتیں کسی سے کم نہیں۔ اگر عوام اپنی خواتین کی مدد کرنا شروع کردیں تو آئندہ نسلوں کیلئے وہ ایک مثال قائم کرسکتی ہیں۔

واضح رہے کہ شاہینہ شاہین تربت جیسے دور افتادہ مقام سے آئی ہوئی پہلی لڑکی ہیں جنہوں نے ٹی وی جیسے ذریعۂ ابلاغ کو آزادئ اظہار کیلئے استعمال کیا۔ شاہینہ شاہین کے مطابق عوام میں ان کے کام کو مقبولیت حاصل ہوئی اور لوگوں نے بے حد حوصلہ افزائی کی۔

ایک مصورہ کے طور پر شاہینہ شاہین اپنے کام کو قومی اور بین الاقومی سطح پر متعارف کروا کر لوگوں پر یہ واضح کرنا چاہتی تھیں کہ بلوچستان کی خواتین کتنا اچھا کام کرسکتی ہیں۔ وہ خواتین کے مسائل کے حل پر کام کرنا چاہتی تھیں اور ہر ایک کی مدد کیلئے تیار رہا کرتی تھیں۔

قتل پر ردِ عمل 

پاکستان سمیت دنیا بھر میں جہاں جہاں شاہینہ شاہین کے قتل کی خبر پہنچی، سوشل میڈیا صارفین نے خواتین دشمن پالیسی اور آزادئ اظہارِ رائے پر قدغن لگانے والوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ صحافیوں کی نمائندہ تنظیم پی ایف یو جے کے روحِ رواں شہزادہ ذوالفقار نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

شہزادہ ذوالفقار کے مطابق اینکر ہونے کے ساتھ ساتھ شاہینہ شاہین نے خواتین کے حقوق کیلئے بے حد فعال کردار ادا کیا۔ جو بھی شاہینہ شاہین کے قتل میں ملوث ہے، اس کے خلاف جلد کارروائی ضروری ہے۔ بلوچستان میں صحافی برادری کو پیشہ ورانہ کام کے دوران خطرات درپیش ہیں جن پر ہمیں شدید افسوس ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہئے کہ صحافی برادری کو تحفظ کا احساس فراہم کرنے کیلئے دور اندیش اقدامات کا سہارا لے۔ شاہینہ شاہین زندگی کے ہر شعبے میں خواتین کو مردوں کے برابر حق دینا چاہتی تھیں۔

آج 12 ستمبر کے روز شاہینہ شاہین کے قتل میں ملوث ملزم کو گرفتار نہ کیے جانے پر کراچی اور تربت میں مظاہروں اور دھرنوں کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ بلوچستان کے شہر حب میں طلباء و طالبات نے احتجاجی ریلی اور مظاہرہ منعقد کیا۔ ریلی کے شرکاء نے پلے کارڈز اور بینرز اٹھارکھے تھے۔

مظاہرین نے شاہینہ شاہین کے قتل کو معاشرے میں خواتین کا قتل اور برداشت کے رویے کا قتل قرار دیا۔ احتجاج کرنے والوں کا کہنا تھا کہ بلوچ خواتین کو سوچی سمجھی سازش کے تحت شعور و علم سے دور رکھا جا رہا ہے۔ شاہینہ شاہین کا قتل روشن دماغ اور علم کا قتل ہے۔ 

مقتولہ بطور قومی سرمایہ 

اینکر پرسن شاہینہ شاہین کے اندوہناک قتل کو ایچ آر سی پی ریجنل آفس تربت مکران نے ایک قومی سانحہ قرار دے کر افسوس کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ شاہینہ شاہین ایک مصورہ، صحافی، ادیبہ، انسانی حقوق اور خواتین تحریک کی کارکن تھیں۔

ایچ آر سی پی کے مطابق بد قسمتی سے ان کے شوہرنے  ان کی قدر نہ کی اور اکیلے یا کسی کے ساتھ مل کر انہیں وحشیانہ انداز میں قتل کیا۔دزگہار کے نام سے شاہینہ شاہین نے خواتین کی تنظیم قائم کی جس میں خواتین کے مساویانہ حقوق کی تحریک چلائی گئی۔ شاہینہ شاہین کا قتل اس تحریک کاردِ عمل بھی ہوسکتا ہے۔شاہینہ شاہین مکران اکیڈمی آف آرٹس کی چیئرمین بھی تھیں۔ 

قتل کی ممکنہ وجوہات 

ایک صحافی کے طور پر شاہینہ شاہین کو قتل کرنے کی وجہ آزادئ اظہارِ رائے سے خوف ہوسکتا ہے۔ ایک خاتون کو آگے بڑھتا ہوا دیکھ کر عورت مخالف اذہان اس کے خلاف کھڑے ہوسکتے ہیں۔ بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے میں خواتین کے یکساں حقوق کا مطالبہ ویسے بھی زیادہ اچھا نہیں سمجھا جاتا۔

دوسری جانب شاہینہ شاہین ٹی وی اینکر کے طور پر بھی معروف تھیں اور انہوں نے خواتین کے یکساں حقوق پر تحریک بھی چلائی جس سے انہیں قتل کرنے کے پیچھے کوئی نفسیاتی طور پر بیمار ذہن بھی ہوسکتا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ شاہینہ شاہین کا قتل محض گھریلو جھگڑے اور ذاتی دشمنی کی وجہ سے کیا گیا ہو۔

نظامِ انصاف کی حالتِ زار

آج شاہینہ شاہین کے قتل کو 1 ہفتے کا وقت گزر چکا ہے، لیکن مقتولہ کے شوہر یا قتل کی درست وجہ معلوم نہیں ہوسکی۔ ایسے میں تربت پولیس کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں۔

ملک بھر میں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی، قتل اور ہراسگی کے واقعات کے ساتھ ساتھ صحافیوں کی آزادئ اظہارِ رائے بھی مختلف مشکلات کا شکار ہے۔ صحافیوں کو حق کہنے کی سزا ہر دور میں دی جاتی رہی۔

ملک بھر کے عوام، انسانی حقوق کی تنظیموں اور صحافی برادری کا حکومت سے یہ مطالبہ ہے کہ شاہینہ شاہین کے قاتلوں کو جلد سے جلد گرفتار کرکے قرارواقعی سزا دی جائے تاکہ آئندہ کسی حوا کی بیٹی کو کوئی درندہ قتل نہ کرسکے۔ 

Related Posts