پاکستان میں اقلیتوں کا قومی دن آج منایا جارہا ہے جو بابائے قوم و بانئ پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کی 11 اگست 1947ء میں کی گئی تقریر کی یادگار کے طور پر منایا جاتا ہے۔
آئیے اقلیتوں کے قومی دن کے موقعے پر پاکستان اور بھارت میں موجود اقلیتوں کی صورتحال کا جائزہ لیتے اور یہ دیکھتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت نے اپنی اقلیتوں کو مساوی حقوق دینے کیلئے کیا اقدامات اٹھائے ہیں۔
سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ بابائے قوم قائدِ اعظم محمد علی جناح نے 11 اگست 1947ء میں ایسا کیا کہا تھا کہ پاکستان نے سن 2009ء سے اسے ایک قومی دن کی حیثیت دے دی۔
قائدِ اعظم کا اقلیتوں سے وعدہ
آج سے ٹھیک 73 سال قبل یعنی 11 اگست 1947ء کو کراچی میں پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے قائدِ اعظم محمد علی جناح اقلیتوں سے ایک وعدہ کیا۔
دورانِ خطاب قائدِ اعظم محمد علی جناح نے فرمایا کہ آپ آزاد ہیں۔ آپ آزاد ہیں اپنے مندروں اور مساجد میں جانے کیلئے اور ریاستِ پاکستان میں واقع کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کیلئے آپ آزاد ہیں۔
بانئ پاکستان نے فرمایا کہ پاکستان کے کسی بھی شہری کا تعلق کسی بھی مذہب ، ذات پات یا رنگ و نسل سے ہو، ریاست کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ یعنی ریاست سب شہریوں کو برابر کے حقوق دے گی۔
پاکستان میں اقلیتوں کی صورتحال
آئینِ پاکستان اقلیتوں سے وعدہ کرتا ہے کہ آپ کو مساوی حقوق دئیے جائیں گے اور پاکستان میں رہنے والی اقلیتیں جن میں ہندو، سکھ اور مسیحی برادری سمیت دیگر تمام مذاہب شامل ہیں، سب کو یہ حقوق حاصل ہیں۔
ملک میں مذہب کی بنیاد پر تعصب، نفرت، شر انگیزی یا فتنہ و فساد پھیلانے کی کسی شہری کو اجازت نہیں۔ مسیحی برادری ہو، ہندو یا سکھ، پاکستان میں مذہبی آزادی ہر شہری کا حق ہے۔
نہ صرف یہ کہ پاکستان میں دیگر مذاہب کو اپنی عبادات کا حق حاصل ہے بلکہ وہ مذہبی تقاریب کا اہتمام بھی کرسکتے ہیں، تمام اقلیتوں کو جلسے جلوسوں میں شرکت اور ووٹ ڈالنے کا حق بھی دیا گیا۔
بھارت میں اقلیتی آزادی
ہمسایہ ملک بھارت میں سیکولر ازم یعنی قومی معاملات کو مذہب سے الگ رکھنے کا اعلان تو کیا گیا، لیکن عملی طور پر بھارت ایک ایسے نظرئیے کا پیروکار نظر آتا ہے جسے ہندوتوا کہتے ہیں۔
دعویٰ تو ہر دور میں کیا جاتا رہا کہ بھارت میں ہندو اور مسلم برابر ہیں اور صبح کے وقت شلوک کے ساتھ ساتھ اذان کی آواز بھی سنائی دیتی ہے اور یہ دونوں برابر قرار دئیے گئے، تاہم عملی طور پر ایسا ممکن نہ ہوسکا۔
ہندوستانی مسلمانوں پر تشدد
سن 1992ء میں جب بابری مسجد شہید کی گئی تو اس کے ساتھ ہی بھارتی مسلمانوں پر زندگی اجیرن بنا دی گئی۔ سن 1962ء میں جبل پور میں فرقہ وارانہ تشدد کے دوران سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 55 جبکہ غیر سرکاری حقائق کے مطابق 200 افراد جاں بحق ہوئے۔
وزیرِ اعظم اندرا گاندھی کے دورِ اقتدار میں کانگریس کے ایک گروہ نے 1969ء میں 660 افراد کو ہلاک کیا جن میں سے 430 مسلمان تھے۔ 70ء کی دہائی میں بھی 400 افراد قتل ہوئے جن میں سے اکثریت مسلمان تھی۔
بعد ازاں 2002ء میں گجرات فسادات کے دوران ہزاروں مسلمان قتل ہوئے، گھر جلا دئیے گئے اور خواتین کی آبروریزی کی گئی۔
معاشرتی و اقتصادی تشدد
بھارتی مسلمانوں پر فرقہ وارانہ و جسمانی تشدد کے ساتھ معاشرتی و سیاسی اور معاشی تشدد بھی کیا گیا۔ منموہن سنگھ کے دور میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے پتہ چلایا کہ مسلمانوں کے حالات دیگر کے مقابلے میں کہیں زیادہ خراب ہیں جس کے پیچھے ریاستی ادارے ہیں۔
حال ہی میں بھارتی حکومت نے سٹیزن شپ امینڈمنٹ یعنی شہریت ترمیم کا متعصبانہ قانون منظور کیا جس کے تحت مسلمانوں سے روا رکھا جانے والا امتیازی سلوک مزید شدت اختیار کر گیا۔
متعصبانہ قوانین کے خلاف جب احتجاج کیا گیا تو بھارتی حکومت نے پولیس اہلکاروں کو لاٹھیاں اور ہتھیار تھما کر مظاہرین پر لاٹھی چارج اور گولیاں برسانے کیلئے آزاد چھوڑ دیا۔
پاکستان میں دیگر مذاہب کی عبادت گاہیں
وزیرِ اعظم عمران خان نے اقلیتوں کیلئے گردوارہ تعمیر کرنے کا اعلان کیا جس کے تحت ننکانہ صاحب میں سکھوں کی سب سے بڑی عبادت گاہ تعمیر کی گئی۔
اسلام آباد میں مندر کی تعمیر پر بھی حکومت کو کوئی اعتراض نہیں جبکہ بھارت میں بابری مسجد کے بعد دیگر عبادت گاہیں بھی حکومت کے ہاتھوں محفوظ نہیں ہیں۔ تاج محل کو ختم کرنے کیلئے بھی تیاریاں جاری ہیں۔
تاج محل کی جگہ مندر کی تعمیر
بھارتی سپریم کورٹ سے بابری مسجد پر اپنے حق میں فیصلہ کروانے کے بعد گزشتہ برس نومبر میں بی جے پی نے اعلان کیا کہ ہم تاج محل کو گرائیں گے جس کی جگہ مندر تعمیر کیا جائے گا کیونکہ یہاں پہلے مندر ہوا کرتا تھا۔
بے بنیاد دعویٰ کرتے ہوئے بھارتیہ جنتا پارٹی نے کہا کہ کیونکہ مندر گرا کر تاج محل بنایا گیا، اس لیے ضروری ہے کہ تاج محل کو منہدم کیا جائے اور یہاں مندر تعمیر کیا جائے۔
قومی دن کے موقعے پر ہمارے فرائض
جب بابائے قوم قائدِ اعظم محمد علی جناح نے یہ وعدہ کیا کہ اقلیتوں کو برابر کے حقوق دئیے جائیں گے تو پاکستان کے ہر شہری کو چاہئے کہ اپنے آپ کو اِس وعدے کا پابند سمجھے۔
ہر قسم کی متعصبانہ سوچ سے دور رہتے ہوئے پاکستان کے ہر شہری کو قومی فریضہ سمجھ کر ہندو اور مسیحی برادری سمیت ملک میں بسنے والی ہر اقلیت کو اپنے برابر کا حق دینا چاہئے۔
پاکستان ہے تو ہم ہیں اور اقلیتوں نے پاکستان کی تعمیر و ترقی کیلئے اپنا خون پسینہ بہایا ہے، اس لیے ان کے ساتھ کسی بھی قسم کا متعصبانہ رویہ ہمیں بھارت جیسے ہندوتوا کے پیروکار ملک کے مماثل قرار دئیے جانے کا باعث ہوسکتا ہے۔
حکومتِ پاکستان قائدِ اعظم کا وعدہ نبھانے کیلئے پر عزم ہے جس کے دوران ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ اقلیتی برادری کے ساتھ مل کر وطن کی تعمیر و ترقی کیلئے آگے بڑھیں۔ہر شہری وطن کی ترقی کیلئے اپنا کردار ضرور ادا کرے۔