گزشتہ روز وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے میڈیا نمائندگان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تمام کاروبار پر اوقاتِ کار اور لاک ڈاؤن کی پابندیاں ختم کی جارہی ہیں جبکہ دنیا نے کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کامیابی کو تسلیم کر لیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان سے کورونا وائرس مکمل طور پر ختم ہوگیا ہے کہ لاک ڈاؤن کا تصور ہی ختم کیا جارہا ہے؟ سب سے پہلے سخت لاک ڈاؤن نافذ ہوا جس کی پابندیاں نرم ہوتے ہوتے اسمارٹ لاک ڈاؤن تک آئیں اور آج اوقاتِ کار کی پابندی بھی ختم کرنے کے حوالے سے فیصلے ہو رہے ہیں۔
آئیے پاکستان بھر میں کورونا کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ یہ علم ہوسکے کہ کیا وائرس پاکستان پر بے اثر ثابت ہوا؟ اور کیا معاشی ادارے کھولنے اور مختلف مقامات پر عوامی اجتماعات کے باعث وائرس کی کسی نئی لہر کا امکان تو نہیں؟
پاکستان بھر میں کورونا وائرس کی موجودہ صورتحال
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پاکستان بھر میں کورونا وائرس کے فعال کیسز کی تعداد 18 ہزار 494 رہ گئی ہے جبکہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 2 ہزار 41 افراد کورونا وائرس سے صحتیاب ہوئے۔
گزشتہ 1 روز کے دوران وائرس کے باعث 17 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ 782 مزید افراد کے اجسام میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی۔ وائرس کے مجموعی کیسز کی تعداد 2 لاکھ 82 ہزار 645 ہے۔
اگر ہم فیصدی اعتبار سے جائزہ لیں تو جن افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ان میں سے 91 اعشاریہ 3 فیصد وائرس سے صحتیاب ہوئے جبکہ شرحِ اموات صرف 2 اعشاریہ 1 فیصد ہے۔ مجموعی طور پر 6 ہزار 52 افراد وائرس کا شکار ہو کر دارِ فانی سے رخصت ہوچکے ہیں۔
کون سی پابندی کب ہٹائی جائے گی؟
گزشتہ روز وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا کہ تعلیمی ادارے 15 ستمبر سے کھولے جائیں گے جس سے قبل 7 ستمبر کو آخری نظرِ ثانی کی جائے گی یعنی غور کیا جائے گا کہ کورونا وائرس کے اعدادوشمار کہیں کسی نئی لہر کا پتہ تو نہیں دے رہے؟ حکومت ریسٹورنٹس اور ہوٹلز بھی کھولنے کی اجازت دے گی۔
دوسری جانب سیر و تفریح کے پر فضاء مقامات پر ریسٹورنٹس اور ہوٹلز کو کل یعنی 8 اگست سے کھولنے کی اجازت دے دی گئی۔ تفریح کیلئے تھیٹر، سینما، میوزیم اور پارکس وغیرہ 10 اگست سے کھولنے کا فیصلہ کیا گیا۔
کھیلوں کی اجازت بغیر تماشائیوں کے دی گئی تاہم ریسلنگ اور کبڈی جیسے جسمانی کھیلوں پر پابندی برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ 30 ستمبر تک ہوائی جہازوں اور ٹرینوں میں سفر کیلئے ایس او پیز کی پابندی لازمی ہوگی۔
قومی رابطہ کمیٹی نے شادی ہالز 15 ستمبر سے کھولنے کی اجازت دی۔ بیوٹی پارلرز 10 اگست سے کھول دئیے جائیں گے۔ مزار اور درگاہیں بھی کھول دی گئیں، تاہم عرس کیلئے مقامی انتظامیہ سے اجازت لازمی قرار دی گئی۔
حکومت نے ڈبل سواری کی اجازت دیتے ہوئے اعلان کیا کہ سڑکوں پر ٹرانسپورٹ پر بھی کوئی پابندی نہیں ہوگی۔ ٹرانسپورٹ کے شعبے کو مکمل طور پر فعال کردیا جائے گا۔
لاک ڈاؤن ختم، پابندی برقرار
وائرس کی روک تھام کیلئے عائد لاک ڈاؤن ہٹانے کے بعد آج وفاقی وزیر اسد عمر نے قومی کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس کا خطرہ بدستور موجود ہے۔ اگر عوام نے حفاظتِ صحت کی ہدایات پر عمل نہ کیا تو کورونا دوبارہ پھیل سکتا ہے۔
اسد عمر نے کہا کہ محرم الحرام کے دوران بھی گائیڈ لائنز پر عمل کے جذبے کو برقرار رہنا چاہئے۔ حکومت نے یومِ آزادی اور محرم الحرام کے متعلق جامع کوڈ آف کنڈکٹ تشکیل دے دیا ہے۔ سماجی فاصلہ ضروری ہوگا۔
حقیقت کیا ہے؟
غور کیجئے تو کورونا وائرس کے خلاف حکومتی حکمتِ عملی سونے کا نوالہ کھلاتے ہوئے شیر کی نظر سے دیکھنے کے مترادف نظر آتی ہے۔ ایک طرف حکومت نے لاک ڈاؤن کی تمام تر پابندیاں ختم کرنے کا اعلان کردیا جبکہ دوسری جانب ایس او پیز اور سماجی فاصلے کی پابندی اب بھی لازمی قرار دی جارہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ کورونا وائرس ابھی تک وطنِ عزیز پاکستان سے مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔ جب تک پاکستان میں کورونا وائرس کا ایک بھی مریض موجود ہے، پاکستان کو وائرس سے پاک قرار نہیں دیا جاسکتا۔
کورونا وائرس حقیقت یا افسانہ؟
حیرت انگیز طور پر وطنِ عزیز پاکستان کا ایک مخصوص طبقہ آج بھی یہ سمجھتا ہے کہ کورونا وائرس نامی کسی مرض کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں بلکہ یہ محض مغربی ممالک، خاص طور پر امریکا اور اسرائیل کا پروپیگنڈہ ہے۔ ہر روز وائرس کے اعدادوشمار کی خبروں کو جھوٹ اور خیالی پلاؤ قرار دینے والے اس طبقے کو صرف 1 سوال پر غور کرنا چاہئے۔
سوال یہ ہے کہ اگر واقعی کورونا وائرس کا کوئی وجود نہیں تو دنیا بھر سے کورونا وائرس کے مریضوں اور ہلاکتوں کے اعدادوشمار کیسے وصول ہوتے ہیں؟ جب کورونا وائرس کے باعث کوئی شخص جاں بحق ہوتا ہے تو اس کے اہلِ خانہ کے آنسو ہمیں کورونا وائرس کی سچائی بتا رہے ہوتے ہیں کہ یہ کوئی جھوٹ یا پروپیگنڈہ نہیں ہے۔
عوام کو کیا کرنا چاہئے؟
اسلام میں خودکشی اور قتل دونوں حرام ہیں۔ اگر کوئی شخص کورونا وائرس کو افسانہ سمجھ کر اس سے متاثر ہو اور بعد ازاں جاں بحق ہوجائے تو یہ ایک طرح کی خودکشی جبکہ اگر ایسے کسی شخص کی وجہ سے کسی دوسرا شخص کورونا وائرس کا شکار ہو کر جان کی بازی ہار جائے تو یہ ایک طرح سے قتل ہے۔
فرض کیجئے کہ کورونا وائرس نام کی کوئی چیز اِس دنیا میں سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ اس کے باوجود اگر آپ سماجی فاصلہ اپنانے اور ماسک پہننے جیسی تمام تر پابندیوں پر عمل پیرا رہے تو آپ کا کیا نقصان ہوگا؟ لیکن اگر وائرس حقیقی وجود رکھتا ہے اور کوئی شخص احتیاط نہ کرے تو اس کی جان تک جاسکتی ہے۔
عوام کو چاہئے کہ کورونا وائرس کے مسئلے کو سنجیدگی سے لیں، ایس او پیز، سماجی فاصلے اور بار بار ہاتھ دھونے کی طبی ہدایات پر عمل جاری رکھیں جب تک وطنِ عزیز پاکستان کو کورونا وائرس سے پاک قرار نہیں دے دیا جاتا۔