پنجاب اسمبلی سے منظور شدہ تحفظِ بنیادِ اسلام ایکٹ کےاغراض و مقاصد اور تعریف و تنقید

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پنجاب کا مالی سال 2021-22 کا بجٹ 14 جون کو پیش کیا جائے گا
پنجاب کا مالی سال 2021-22 کا بجٹ 14 جون کو پیش کیا جائے گا

صوبہ پنجاب کی قانون ساز اسمبلی نے حال ہی میں تحفظِ بنیادِ اسلام ایکٹ کی منظوری دی ہے جس پر مذہبی و سیاسی حلقوں میں شدید تنقید ہوئی جبکہ بعض حلقوں نے بل کی تعریف بھی کی۔

عوام الناس میں تحفظِ بنیادِ اسلام ایکٹ کے حوالے سے شعور و آگہی کی کمی ہے، اِس لیے ضروری محسوس ہوتا ہے کہ ایکٹ کے مندرجات، اغراض و مقاصد اور تعریف و تنقید پر کچھ روشنی ڈالی جائے۔

تحفظِ بنیادِ اسلام ایکٹ کیا ہے؟

پنجاب اسمبلی کے منظور کیے گئے تحفظِ اسلام ایکٹ کے مطابق اللہ تعالیٰ، حضورِ اکرم ﷺ اور دیگر انبیاء علیہم السلام، الہامی کتب، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، خلفائے راشدین، ملائکہ اور اہلِ بیتِ اطہار کے خلاف گستاخانہ مواد کی اشاعت پر پابندی لگا دی گئی۔

مذکورہ قانون کے تحت حضورِ اکرم ﷺ کا نام جہاں جہاں لیا جائے، اُس سے قبل خاتم النبیین لکھا جائے اور بعد ازاں عربی رسم الخط کے ساتھ ﷺ لکھنا لازمی قرار دیا گیا۔ الغرض اِسلامی تعریفی القابات کا لکھنا تمام انبیاء، خلفاء، صحابہ، امہات المومین اور مقدس شخصیات کے ساتھ لازمی قرار دیا گیا۔

دوسری جانب قانون میں اسلام سے ہٹ کر بھی مختلف قسم کی پابندیاں عائد کی گئیں۔ کہا گیا کہ پاکستان کے قومی نظرئیے، سالمیت اور سلامتی کو خطرے میں ڈالنے والے مواد پر پابندی ہوگی۔ مخربِ اخلاق مواد، تہذیب کے خلاف بات یا بے حیائی برداشت نہیں کی جائے گی۔

قومی معاملات میں مزید آگے بڑھتے ہوئے قانون کہتا ہے کہ تمام ایسی کتابیں اور مواد بھی شائع نہیں کیاجاسکتا جو نقصِ امن پیدا کرے یا جس سے دہشت گردی یا انتہا پسندی کو ترویج حاصل ہو، جس کا فیصلہ کرنے کا اختیار صوبائی اطلاعات و نشریات کو دے دیا گیا۔

نئے قانون کے تحت صوبائی محکمۂ اطلاعات ونشریات اخبارات کے دفاتر، چھاپہ خانوں اور کتب شائع کرنے والے اداروں پر چھاپے مار سکتا ہے۔ کتابیں اور مواد قبضے میں لے سکتا ہے۔ مالی اثاثوں اور اکاؤنٹس پر تحقیقات کو عمل میں لاسکتا ہے جبکہ پابندیوں پر عملدرآمد نہ کرنے والوں کیلئے سزائیں بھی تجویز کی گئیں۔

 قانون کے تحت 2 الگ قسموں کی سزائیں دی جاسکتی ہیں۔ اولاً قانون کی دفعہ 3 ایف کی خلاف ورزی پر ضابطۂ فوجداری جبکہ دوم اسلامی دفعات کی خلاف ورزی پر دی جاسکیں گی۔

صرف دفعہ 3 اسلام کے حوالے سے ہے جس کے ذریعے اسلامی تعریفی القابات کا استعمال لازمی قرار دیا گیا۔ 5 سال تک قید اور 5 لاکھ روپے تک جرمانہ عائد کیا گیا جو دفعہ 3 ایف کے علاوہ باقی تمام دفعات پر نافذ ہے۔

حکومت کی نظر میں قانون کے اغراض و مقاصد

بظاہر حکومتِ پنجاب کے نزدیک قانون کی ضرورت مقدس ہستیوں کو توہین سے بچانے کیلئے پیش آئی جبکہ اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کے مطابق اسمبلی کے اراکین ایسے واقعات کے خلاف قراردادیں پیش کرچکے ہیں۔

بل کے حوالے سے وزیرِ اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا کہ تحفظِ اسلام ایکٹ صوبائی حکومت کا تاریخی اقدام ہے جس سے مذہبی رواداری و ہم آہنگی کو فروغ ملے گا۔ نفرت انگیز مواد شائع نہیں ہوسکے گا۔

وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ، اہل بیتِ اطہار، خلفائے راشدین اور صحابہ کرام کیلئے توہین آمیز کلمات پر کارروائی عمل میں لائی جاسکے گی جبکہ پنجاب وہ پہلا صوبہ ہے جس نے اس کیلئے قانون سازی کی۔ 

اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی نے امید ظاہر کی کہ قانون سازی کے بعد فرقہ وارانہ جارحیت کے واقعات کم ہوں گے اور مذہبی ہم آہنگی اور ادب و احترام کا ماحول فروغ پائے گا۔ 

ہیومن رائٹس کمیشن کے تحفظات

غور کیا جائے تو  جو بھاری بھرکم قید اور جرمانے کی سزا ہے اس کا اطلاق اسلام کے علاوہ باقی دفعات پر کیا گیا، تاہم ہیومن رائٹس تنظیموں کے مطابق نئے قانون کی دفعہ 3 ایف اقلیتوں اور فرقوں کو نشانہ بنانے کیلئے ہتھیار کے طور پر استعمال ہوں گی۔

قانون کے تحت عالمی کتابیں اور ملک میں چھپنے والی کتابیں، پمفلٹ، بینرز اور دیگر کتابی مواد ضبط بھی کیاجاسکتا ہے اور شائع کرنے والے اداروں کو سزائیں بھی دی جاسکتی ہیں۔ ڈی جی پی آر کو وسیع تر اختیارات دے دئیے گئے۔

یہ قانون کہتا ہے کہ ڈی جی پی آر سے اجازت لیے بغیر پہلے سے پاکستان یا بیرونِ ملک شائع شدہ کتاب دوبارہ شائع نہیں کی جاسکتی اور اگر کوئی بھی کتاب شائع کرنا چاہیں تو ڈی جی پی آر کو تحریری درخواست فارم کی صورت میں دیں۔ ڈی جی پی آر مذہبی مواد کو متحدہ علماء بورڈ کو بھجوائے گا۔

قومی تحفظِ انسانی حقوق کمیشن (ہیومن رائٹس کمیشن) نے کہا ہے کہ ڈی جی پی آر کو مواد پر اعتراض کا اختیار دینا ناقابلِ قبول ہے۔ کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر مہدی حسن کے مطابق  ملک بھر میں پہلے ہی دفعہ 505 (2) اور انسدادِ دہشت گردی قوانین کی موجودگی میں نئی قانون سازی کی کوئی ضرورت نہیں۔

سربراہ ہیومن رائٹس کمیشن کے مطابق نئی قانون سازی سے کتابوں کو نذرِ آتش کرنے کی فرسودہ رسم دوبارہ زندہ ہوسکتی ہے۔

 قانون منظور کیسے ہوا؟

جس روز پنجاب اسمبلی میں بل منظور ہوا، حزبِ اختلاف نے کورم پورا نہ ہونے کی شکایت کی اور بائیکاٹ کرتے ہوئے اپوزیشن کے اراکینِ پنجاب اسمبلی ایوان سے واک آؤٹ کر گئے۔ پی ٹی آئی نے اراکین کو ایوان میں بلا کر کورم پورا کیا جس کے بعد بل کی منظوری عمل میں لائی گئی۔

بل کی منظوری کیلئے سب سے اہم کردار معاویہ اعظم طارق نے ادا کیا جو راہِ حق پارٹی کے ذریعے رکنِ پنجاب اسمبلی بنے۔ صوبائی وزیر عمار یاسر اور حافظ طاہر اشرفی نے بھی بل کی منظوری کیلئے کام کیا۔

تجزیہ کاروں کی مثبت و منفی رائے

اوریا مقبول جان پاکستان کے چوٹی کے کالم نگاروں میں شمار ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 20سالہ دور کی سیکولر بد اخلاقیات کے سیلاب پر حکومتِ پنجاب نے تحفظِ بنیادِ اسلام ایکٹ کی صورت میں باندھا، جو ٹھنڈی ہوا کا ایسا جھونکا ہے جو تقریباً 30 سال بعد آیا۔

انہوں نے کہا کہ 30 سال سے قومی نصاب کو زہر آلود کیا گیا۔ سازش کے تحت نسلیں دین سے بے گانہ بنائی گئیں۔ وزیرِ اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار قانون کی منظوری پر تحسین کے مستحق ہیں۔

دوسری جانب ڈاکٹر محمد شہباز نے کہا کہ ایکٹ کا سب سے قابلِ اعتراض اور گھناؤنا پہلو ڈی جی پبلک ریلیشنز یا حکومتی افسر کے ہاتھوں میں اختیارات دینا ہے۔ حکومتی افسران مذہبی کتب کی اشاعت کا گلا گھونٹ دیں گے۔  پبلشر کسی کتاب کو شائع کرنے سے پہلے ہزار بار سوچتا ہے کہ خرچ بھی پورا ہوگا یا نہیں؟

ڈاکٹر شہباز نے کہا  کہ یہاں بیوروکریسی کو اختیارات دینا کتابوں کے قتل کے مترادف ہے۔یہاں پہلے ہی کتابوں کی روایت آخری سانسیں لے رہی ہے، اگر یہ قانون منظور ہوا تو کتابوں کا جنازہ پڑھ لیجئے گا۔ 

بل پر مختلف مکاتبِ فکر کے علماء کی رائے

تمام شیعہ جماعتوں نے بل پر ردِ عمل دیتے ہوئے اسے سختی سے مسترد کیا۔ اہلِ تشیع علماء کی رائے یہ تھی کہ بل بدنیتی سے منظور کروایا گیا۔ 

دوسری جانب مرکزی علمائے اہلِ سنت پاکستان نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ یہ تحفظِ خارجیت بل ہے۔ علمائے کرام میں ڈاکٹر علامہ شبیر انجم اور محمد مفتی آصف نعمانی شامل تھے۔

پروفیسر فاروق سعیدی، اصغر عارف چشتی اور علامہ عاصم مخدوم نے بل پر تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ اگر یہ ایکٹ بن گیا تو ہم کوئی دینی بات لکھ نہیں سکتے۔ اہلِ سنت کی نسلیں تبدیل کرنے کی سازش مسترد کرتے ہیں۔

علماء نے کہا کہ اذان سے پہلے ہم درودوسلام پیش کرتے ہیں۔ حکومت بل فوری واپس لے۔ موجودہ حکومت شیعہ سنی فساد کا سبب بن سکتی ہے۔ مندر جتنے مرضی تعمیر کیجئے مگر مذہب کو ٹارچر نہ کریں۔

رہنماؤں نے کہا کہ بل پیش کرنے والے اپنا عقیدہ اور کافرانہ نظریات دوسرے مکاتبِ فکر پر مسلط نہ کریں۔ وطنِ عزیز پاکستان کو شیعہ اور سنی دونوں نے مل کر بنایا تھا۔ فرقہ واریت کے بیج نہ بوئے جائیں۔

دوسری جانب اہلسنت والجماعت کراچی ڈویژن کے صدر علامہ رب نواز حنفی، جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی رہنما علامہ حماد مدنی، علامہ عبدالحمید تونسوی اور دیگر نے کہا کہ ملک ایک عرصے تک دہشت گردی کی آگ میں جلتا رہا۔ تحفظِ بنیادِ اسلام بل کو فوری طور پر قانون کا حصہ بنایا جائے۔

مجلسِ وحدت المسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ جب آئینِ پاکستان موجود ہے تو دوسرے کسی بل کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ تحفظِ بنیادِ اسلام بل اپنے نظریات کو دیگر افراد پر زور زبردستی سے مسلط کرنے کی کوشش ہے جو بنیادی انسانی حقوق اور قانون سے مطابقت نہیں رکھتا۔

جمعیت اہلِ حدیث پاکستان کے سربراہ  اور سینیٹر علامہ پروفیسر ساجد میر نے بل کی منظوری کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی اختلافات کو اپنی جگہ رکھنا چاہئے تاہم اسلام سیاست پر ترجیح رکھتا ہے۔بل صوبائی اسمبلی کا تاریخی اقدام ہے جبکہ اسپیکر اور بل تیار کرنے والے تمام اراکینِ اسمبلی کو مبارکباد دیتے ہیں۔ مخالفین کا مقابلہ کریں گے۔

عالمی ختمِ نبوت موومنٹ کے مرکزی امیر مولانا ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ اور دیگر نے بل کی منظوری پر حکومتِ پنجاب اور اسپیکر پنجاب اسمبلی کو مبارکباد دی اور کہا کہ ملک سے فرقہ واریت کا خاتمہ ہوگا اور توہین آمیز مواد اور کتابوں کی اشاعت کی روک تھام ممکن ہوسکے گی۔

لاہور میں مرکزی علماء کونسل پاکستان نے بھی بل کی حمایت کی۔ علماء کونسل کے مطابق بل سے فرقہ واریت کا خاتمہ ہوگا اور قابلِ اعتراض اور توہین آمیز مواد کی روک تھام عمل میں لائی جاسکے گی۔ محرم الحرام میں مثالی امن ہوگا۔ صوبے سے انتشار ختم ہوجائے گا۔ 

سیاسی  رہنماؤں کی آراء

مسلم لیگ (ق) کی مرکزی رہنما سمیرا ساہی نے کہا کہ بنیادِ اسلام بل کی منظوری تاریخی قدم ہے، ایکٹ پر عملدرآمد کو یقینی بنانا چاہئے۔ بل کی منظوری دینِ اسلام کی حفاظت اور سربلندی کیلئے سنگِ میل ثابت ہوگی۔

پاکستان راہِ حق پارٹی پنجاب کے صدر شیخ محمد اقبال نے کہا کہ یہ بل نظریہ پاکستان کی عکاسی کرتا ہے۔ جب بل منظور ہورہا تھا تو تمام سیاسی جماعتیں حمایت کررہی تھیں۔ بل کو کسی خاص عقیدے سے منسوب کرنا درست نہیں۔ 

Related Posts