ملک بھر میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے، سندھ ضلع خیرپور کے تعلقہ ٹھری میر واہ کے ریٹائرڈ اسکول ماسٹر سارنگ شر بلوچ کی ایک نوعمر بچے سے بدفعلی نے پاکستان میں بچوں کیساتھ جنسی زیادتی کے مسئلے کو ایک بار پھر پوری شدت سے اجاگرکیا ہے۔
پاکستان بھر میں معصوم بچیوں اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات منظر عام پر آرہے ہیں جبکہ لاتعداد کیسز تو میڈیایا پولیس تک پہنچتے بھی نہیں ہیں،لوگ بدنامی کے خوف سے خاموشی اختیار کرلیتے ہیں جس سے جنسی جرائم کے عادی مجرمان کے حوصلے بلند ہوجاتے ہیں ۔
جنسی زیادتی
قصور کی زینب سے زیادتی اورقتل کے بعد یہ امید ہوچلی تھی کہ پاکستان میں بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات میں شائد کمی آئیگی تاہم ملک میں بچوں سے جنسی زیادتی کا سلسلہ کسی صورت کم ہونے میں نہیں آرہا، غیرسرکاری تنظیم کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر روز 12بچے جنسی تشدد کا نشانہ بنتے ہیں اور دیہی علاقوں میں صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔
ایک اوررپورٹ کے مطابق گزشتہ برس پاکستان میں کم عمر بچوں اوربچیوں سے زیادتی کے 4ہزار واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ بہت سے واقعات متاثرہ خاندانوں کی جانب سے رپورٹ نہیں کیے جاتے۔ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی انتہائی گھناؤنا فعل ہے، جنسی زیادتی کرنیوالا شخص بُری نیت سے بچے کو چھوتا ہے اور اکثر واقعات میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بدفعلی کے دوران ملزمان بچے کی ویڈیو بھی بناتا ہے۔
سارنگ شربلوچ
درس و تدریس کے مقدس پیشے سے تعلق رکھنے والے خیرپور ٹھری میر واہ کے ریٹائرڈ اسکول ماسٹر سارنگ شربلوچ پرحالیہ واقعہ سے قبل 130سے زائد بچوں سے جنسی زیادتی کا الزام ہے، مقدمات درج ہونے کے باوجود ملزم آزاد ہے اور حالیہ واقعہ نے پولیس کی کارکردگی پر سوال اٹھادیئے ہیں۔
ملزم ٹیوشن کیلئے آنیوالے بچوں سے بدفعلی کرتا تھا ،نیبائو محلے کا گریڈ 17کا ریٹائرڈ استاد سارنگ شربلوچ خود بھی بچوں سے بدفعلی کرتا تھا اور بچوں سے آپس میں اجتماعی بدفعلی کروا کر ریکارڈنگ کرتا تھا اور بعد ازاں یہ ویڈیوز سوشل میڈیا اور دیگرویب سائٹس پر اپ لوڈ کردیتا تھا، سوشل میڈیا پر چلنے والی ایک مبینہ ویڈیو میں سارنگ شربلوچ 130 سے زائد بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور ان کی ویڈیوز بنانے کا اعتراف کرتا پایا گیا لیکن اس کے باوجود ملزم کیخلاف کارروائی نہ ہونا اداروں کیلئے سوال نشان ہے۔
جنسی زیادتی کے طبعی اور نفسیاتی اثرات
جنسی استحصال سے متاثرہ بچے کی صحت پر انتہائی منفی اثرات رونما ہوتے ہیں اور اکثر سنگین امراض بھی لاحق ہوجاتے ہیں جبکہ زیادتی کا شکار ہونیوالے بچے کی ذہنی صحت بھی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔
متاثرہ بچہ عام بچوں کے برعکس شرمندہ ، افسردہ اور ذہنی الجھاؤ کا شکار ہوجاتا ہے۔ زیادتی کے بعد متاثرہ بچے میں ایک انجانا خوف پیدا ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے وہ معمول کی سرگرمیوں سے دور ہوکر اچانک جارحیت پسند ،غصیلا،چڑچڑااور ہر شے سے بدظن ہوجاتا ہے۔
متاثرہ بچے کے اندر ایک اضطراری کیفیت جنم لیتی ہے جو اس کی تعلیمی، تخلیقی اور سماجی زندگی پر گہرا اثر ڈالتی ہے۔
واقعات میں اضافے کی وجوہات
پاکستان میں جنسی زیادتی کا مسئلہ غور طلب ہی نہیں بلکہ حل طلب بھی ہے، جنسی زیادتی کے مجرموں کو سزاء نہ ملنے کی وجہ سے مسائل میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے، اکثر کیسز میں ملزمان قانونی سقم کا فائدہ اٹھاکر گرفت سے نکل جاتے ہیں اور مزید بچوں کی زندگیاں تباہ کرتے ہیں۔
قومی اسمبلی میں بچوں سے جنسی زیادتی اور قتل کرنے والے مجرموں کو سرعام پھانسی دینے کی قرارداد تومنظور ہوچکی ہے لیکن تاحال اس پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔پاکستان میں خونی رشتوں میں بھی جنسی استحصال کے واقعات تواتر کیساتھ دیکھنے میں آرہے ہیں لیکن قانونی کمزوری کے سبب اس مسئلے کا حل دکھائی نہیں دیتا۔
بچوں سے زیادتی کا مسئلہ کیسے حل ہوگا
پاکستان میں پہ در پہ رونما ہونیوالے واقعات معاشرے میں بے چینی پیدا کررہے ہیں، بچے خونی رشتے داروں کے ساتھ بھی محفوظ نہیں ہے، جنسی زیادتی کے واقعات نے معاشرے میں ایک گھٹن پیداکردی ہے جس کی وجہ تعلیم اور تربیت کی کمی ہے۔
ہمارے معاشرے میں بچوں کومیل جول، اٹھنے بیٹھے اور حرکات و سکنات کے حوالے سے زیادہ آگاہی نہیں دی جاتی جس کی وجہ سے جنسی درندے باآسانی بچوں کے ساتھ گھل مل کر انہیں اپنے جال میں پھنسا لیتے ہیں۔
جنسی جرائم کے خاتمے کیلئے سزاؤں پر عملدرآمد بھی بہت ضروری ہے کیونکہ جب تک جنسی جرائم میں ملوث مجرموں کو سرعام اور عبرتناک سزائیں نہیں دی جائینگی تب معاشرے ایسے ناسوروں سے پاک نہیں ہوگا۔