پاکستان کی تاریخ میں 11 جولائی کی اہمیت اور آئی ایم ایف کی غلامی کی لرزہ خیز داستان

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان کی تاریخ میں 11 جولائی کی اہمیت اور آئی ایم ایف کی غلامی کی لرزہ خیز داستان
پاکستان کی تاریخ میں 11 جولائی کی اہمیت اور آئی ایم ایف کی غلامی کی لرزہ خیز داستان

پاکستان کی تاریخ میں 14 اگست جتنا روشن اور زبردست دن ہے، شاید اتنا ہی سیاہ دن 11 جولائی کو قرار دیا جائے گا کیونکہ اپنی آزادی کے 3 ہی سال بعد یعنی 11 جولائی 1950ء کو پاکستان نے آئی ایم ایف کی غلامی اختیار کر لی تھی۔

پاکستان سمیت دُنیا بھر کے 189 ممالک آئی ایم ایف کے ممبران ہیں جنہوں نے مختلف تاریخوں پر اقرارِ غلامی کیا، یعنی ممبرشپ حاصل کی اور قرض حاصل کرکے سود در سود کی ادائیگی سے یہ قومیں غلام ابنِ غلام بنتی چلی گئیں۔

سود یا ناقابلِ فہم شرائط کی بنیاد پر لیے گئے قرضے جدید غلامی کی اہم ترین شکل ہیں۔ آئیے اِس تاریخی دن کے موقعے پر یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ہم نے آئی ایم ایف سے اصل قرض کتنا لیا؟ اس پر کتنا سود ادا کیا؟ اور ہمارے بچوں پر فی کس آئی ایم ایف کے کتنے قرضے آج واجب الادا ہیں، سب سے پہلے چھوٹے سوالات سے شروع کرتے ہیں۔ 

آئی ایم ایف کیا ہے؟

سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ آئی ایم ایف خود کو کیا قرار دیتا ہے اور یہ دراصل ہے کیا؟ تعریف کے اعتبار سے آئی ایم ایف یعنی انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ اقوامِ متحدہ کے ماتحت کام کرنے والے ایک ایسے ادارے کا نام ہے جو مختلف ممالک کو قرض دے کر ان کی مشکلات آسان کرتا ہے۔

غور کیا جائے تو آئی ایم ایف بڑی نیکی کا کام کر رہا ہے کیونکہ جب قرض مانگنے والی کسی قوم کو قرض مل جاتا ہے تو اس کی خوشی کی انتہا نہیں رہتی اور ملک کے معاشی اشاریے سب اچھا ہے کی نوید سنانے لگتے ہیں، لیکن ٹھہرئیے۔ یہ تو ابتدائے عشق ہے۔ اصل میں ہوتا کیا ہے؟ یہ آگے جا کر پتہ چلتا ہے۔

تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے قرضے سود کے ساتھ ساتھ مختلف النوع شرائط کے تحت دئیے جاتے ہیں جن میں عوام پر ٹیکس بڑھانا، اداروں کو دی گئی سبسڈیز ختم کرنا، نئے نئے ٹیکس تخلیق کرنا اور بجلی و گیس سمیت عوام الناس کو دی گئی سہولیات کو مہنگا کرنا شامل ہے جس کے ذریعے یہ ادارہ مختلف اقوام کو اپنا غلام بنا لیتا ہے۔

ممبرشپ اور قرض لازم و ملزوم

اگر ہم پاکستان کی تاریخ پر غور کریں تو سن 1950ء میں ملک آئی ایم ایف کا ممبر بنا اور سب سے پہلا قرض بھی اسی دوران لیا گیا اور پاکستان سمیت دنیا کے زیادہ تر ممالک کی یہی صورتحال ہے۔

گویا آئی ایم ایف کی ممبرشپ اور قرض لازم و ملزوم ہیں۔ جو ملک آئی ایم ایف سے قرض لیتا ہے اُس کے قرض لینے کی شرح وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے کیونکہ سود کی ادائیگی کیلئے مزید قرض لینا ضروری ہوتا ہے۔

سود کیا ہے؟

اگر آپ کاروبار کرتے ہیں تو اس کے نفع یا نقصان کے آپ خود ذمہ دار ہوتے ہیں تاہم سود ایک ایسا کاروبار ہے جس میں آپ دی گئی رقم پر ایک خاص شرحِ منافع مقرر کرتے ہیں جو قرض لینے والے کو ادا کرنا ہوتی ہے۔

اسلامی اصولوں کے تحت سود حرام ہے بلکہ سود کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ براہِ راست جنگ قرار دیا گیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ  وطنِ عزیز کا نام تو اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے لیکن یہاں اسلام کے بڑے اصولوں میں سے ایک یعنی سود کی مخالفت کو ملک کے قیام کے 3 سال بعد ہی بری طرح نظر انداز کردیا گیا۔

پاکستان پر قرضوں کی تازہ ترین صورتحال 

مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے لیے گئے قرضوں کے اعتبار سے پاکستان پر گزشتہ مالی سال کے دوران 111047 ملین یعنی 111 ارب 4 کروڑ 70 لاکھ ڈالر کا بیرونی قرضہ تھا جو رواں مالی سال کے دوران حکومتی کاوشوں کی بدولت 109949 یعنی 109 ارب 94 کروڑ 90 لاکھ ڈالر رہ گیا ہے۔

رواں برس کے تیسرے مہینے یعنی مارچ 2020ء تک کے اعدادوشمار کے مطابق تخمینہ لگایا گیا کہ پاکستان پر 42 اعشاریہ 8 ٹریلین روپے یعنی امریکی 256 ارب ڈالرز کا قرض ہے جو پاکستان کے جی ڈی پی کا 98 اعشاریہ 2 فیصد بنتا ہے، تاہم حکومت نے صرف آئی ایم ایف سے قرض نہیں لیا کیونکہ قرض کے ذرائع اور بھی بہت سے ہیں۔

قرض دینے والے اندرونی اداروں سے حکومت نے 18 اعشاریہ 17 ٹریلین روپے قرض لے رکھا ہے جبکہ پی ایس ایز (یعنی پبلک سیکٹر انٹرپرائزز) سے حکومت 1 اعشاریہ 378 ٹریلین روپے لے چکی ہے۔ دوسری جانب پاکستان کا بیرونی قرضہ لگ بھگ 112 ارب ڈالر ہے۔

پیرس کلب سے پاکستان نے 11 اعشاریہ 3 ارب ڈالر لیے، ملٹی لیٹرل ڈونرز سے 27 ارب ڈالرز، آئی ایم ایف سے 5 اعشاریہ 765 ارب ڈالر اور یوروبانڈ سمیت دیگر عالمی بانڈز اور سکوک کے ذریعے 12 ارب ڈالرز قرض لیا گیا۔

وطنِ عزیز کے عظیم دوست اور ہمسایہ ملک چین کی بات کی جائے تو پاکستان نے پاک چین اقتصادی راہداری کے نام پر چین سے تقریباً 19 ارب ڈالرز کا قرض لیا ہے۔

فی کس قرض کی صورتحال 

موجودہ حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ ملک پر قرضوں کا بوجھ کم کیا جائے گا اور آئی ایم ایف سے قرضہ تو بالکل نہیں لیا جائے گا، تاہم مختلف تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے ملک پر قرضوں کے تمام سابقہ ریکارڈز توڑ دئیے ہیں۔

پی ٹی آئی حکومت نے اپنے پہلے ہی سال کے دوران ملک کے ہر شہری پر  پر واجبا الادا قرضوں میں کم و بیش 46 ہزار روپے کا اضافہ کیا۔ 70 سال کے دوران یعنی قیامِ پاکستان سے لے کر جون 2018ء تک حکومتوں نے ہر پاکستانی کو مجموعی طور پر 1 لاکھ 36 ہزار روپے مقروض کردیا۔

بعد ازاں اگلے مالی سال کے بعد یعنی جون 2019ء تک ان قرضوں میں مزید 46 ہزار روپے کا اضافہ ہوا یعنی ہر پاکستانی مجموعی طور پر 1 لاکھ 82 ہزار روپے کا مقروض ہوگیا، خود پی ٹی آئی حکومت کا کہنا ہے کہ ہمیں پہلے سے لیے گئے قرضوں کا بوجھ ختم کرنا ہے۔ سود کی ادائیگی کیلئے ہر سال مزید قرضے لینے ضروری ہیں ورنہ ہم دیوالیہ ہوجاتے۔

اسٹیٹ بینک کے اعدادوشمار 

مرکزی بینک (اسٹیٹ بینک آف پاکستان) کے مطابق مارچ 2019ء تک پاکستان کے مجموعی قرضے اور واجبات 40 ہزار 214 ارب روپے ہیں یعنی گزشتہ 1 مالی سال کے دوران یعنی جون 2018ء کے مقابلے میں قرضوں میں کم و بیش 10 ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا۔

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ہمارے مجموعی قرضے آج سے 7 سال قبل یعنی جون 2013ء تک 16 ہزار 228 ارب تھے اور ہر پاکستانی پر  96ہزار 422 روپے قرض تھا۔ مسلم لیگ (ن) حکومت کرکے چلی گئی تو یہ قرض 1 لاکھ 36 ہزار تک جا پہنچا۔ آج ہم میں سے ہر ایک شخص 1 لاکھ 81 ہزار روپے کا مقروض ہے۔ 

پاکستان کے جی ڈی پی سے موازنہ کریں تو موجودہ قرضے اور واجبات ہمارے جی ڈی پی کا  104 اعشاریہ 3 فیصد ہیں۔ اگر یہی صورتحال رہی تو پی ٹی آئی کے دورِ حکومت کے دوران ہی یہ قرضے گزشتہ 70 سال کے قرضوں سے 2 گنا بھی ہوسکتے ہیں۔

قرضوں سے نجات کتنی ضروری؟

بلا شبہ یہ سوال بے حد اہم ہے کہ ہمارے لیے قرضوں سے نجات کتنی ضروری ہے؟ کیونکہ اگر ہم نے قرضوں پر قابو نہ پایا تو ہم دیوالیہ قرار دئیے جاسکتے ہیں اور ملک معاشی عدم استحکام کی طرف جاسکتا ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ مقروض قوموں کی عالمی برادری کے نزدیک کوئی عزت نہیں ہوتی۔ آہستہ آہستہ انہیں قرض دینا بند بھی کیاجاسکتا ہے جس سے وہ قومیں تباہ حالی کی طرف جاسکتی ہیں۔

پاکستان کو اگر ایک معزز اور عظیم قوم بننا ہے تو قرضوں سے نجات بے حد ضروری ہے۔ مزید قرضے لینے کی بجائے حکومت کو افرادی قوت کو فعال کرنے اور مالیاتی پالیسیوں کی اصلاحات  کی سخت ضرورت ہے۔ 

Related Posts