مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح نہ صرف بانئ پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کی بہن ہونے کے ناطے بلکہ ذاتی قابلیت، صلاحیت اور سیاسی سوجھ بوجھ کے باعث بھی ایک ایسی عظیم سیاسی رہنما تھیں جن سے قوم خاطرخواہ فائدہ نہ اٹھا سکی۔
سن 1948ء سے لے کر اپنے سنِ وفات یعنی 1967ء تک مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح نے پاکستان کی عملی سیاست میں حصہ لیا لیکن پاکستان کی وزیرِ اعظم نہ بن سکیں جس کے پیچھے متعدد پیچیدہ وجوہات ہیں جن پر بحث آج کا موضوع نہیں ہے۔
آئیے مادرِ ملت کی 53ویں برسی کے موقعے پر ان کی زندگی، قائدِ اعظم کے ساتھ تحریکِ آزادی میں فعال کردار اور دیگر سیاسی و قومی نوعیت کے اہم معاملات کا جائزہ لیتے ہیں۔
ابتدائی زندگی
محترمہ فاطمہ جناح کی ابتدائی زندگی مشکلات کا شکار رہی کیونکہ آپ کی والدہ اُس وقت وفات پا گئیں جب آپ کی عمر محض 2 برس تھی۔ بڑی بہن مریم نے محترمہ فاطمہ جناح کی پرورش کی، تاہم والدہ کا کردار الگ ہوتا ہے اور اس کی کمی ہمیشہ محسوس ہوتی ہے۔
قائدِ اعظم محمد علی جناح جب انگلینڈ سے واپس آئے تو فاطمہ جناح محض 4 سال کی تھیں۔ آپ کے والد کا کاروبار زوال کی جانب گامزن تھا۔ سن 1897ء میں قائدِ اعظم نے بمبئی میں وکیل کے طور پر پریکٹس شروع کی اور جلد ہی بہت مشہور ہوئے۔ کچھ وقت کیلئے محمد علی جناح مجسٹریٹ بھی مقرر ہوئے۔یہ 1900ء کی بات ہے۔
جناح فیملی کراچی میں رہائش پذیر تھی۔ قائدِ اعظم نے انہیں بمبئی بلا لیا۔ اُس وقت خود محترمہ فاطمہ جناح کے مطابق ان کی عمر محض 8 برس تھی۔ ان کی تعلیم گھر پر شروع کرائی گئی۔ فاطمہ جناح گڑیا گڈے سے کھیلنا پسند نہیں کرتی تھیں۔ گھومنے پھرنے اور طعام کی بجائے پڑھائی اور مطالعے کا شوق رکھتی تھیں۔
پسند ناپسند
محترمہ فاطمہ جناح دن کے 12 گھنٹے چاکلیٹ کھا کر گزارہ کر لیا کرتیں۔ سائیکل سواری پسند کرتیں اور وقت گزاری کیلئے اسے مشغلہ بھی بنایا۔ سادہ مگر صاف ستھرا لباس انہیں بے حد مرغوب تھا۔
نام و نمود، شہرت اور مال و جاہ کی خواہش محترمہ فاطمہ جناح کو کبھی نہیں رہی۔ وہ سادگی پسند اور سنجیدہ مزاج شخصیت تھیں جنہیں قدرت نے ایک عظیم مقصد کیلئے منتخب کیا۔
ابتدائی اور اعلیٰ تعلیم
مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح نے میٹرک سن 1910ء میں کیا اور سینئر کیمبرج کا امتحان ایک پرائیویٹ طالبہ کے طور پر 1913ء میں پاس کیا۔ تعلیمی عمل میں آپ کی توجہ، انہماک اور سنجیدگی قابلِ تعریف رہی۔
سن 1922ء میں محترمہ فاطمہ جناح ایک باضابطہ ڈینٹیسٹ بنیں اور بمبئی میں ہی کلینک کھولا۔ یہاں مختلف ہندو اور مسلم شہری آ کر محترمہ فاطمہ جناح کے ہاتھوں شفایاب ہو کر جایا کرتے تھے۔
سیاسی سرگرمیاں
سن 1940ء میں تحریکِ آزادی زور پکڑ چکی تھی اور قائدِ اعظم محمد علی جناح کا نام پورے برصغیر میں ایک اسلامی رہنما کے طور پر گونج رہا تھا جو مسلمانوں کیلئے الگ وطن حاصل کرنے کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے نکلا تھا۔
محترمہ فاطمہ جناح آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاسوں میں بھی شریک ہواکرتی تھیں۔ آپ نے خواتین کو تحریکِ آزادی میں شامل ہو کر مردوں کے شانہ بشانہ جنگِ آزادی لڑنے اور الگ وطن کیلئے جدوجہد کا درس دیا۔
آل انڈیا مسلم لیگ کے اس تاریخی اجلاس میں بھی محترمہ فاطمہ جناح شریک ہوئی تھیں جس میں قراردادِ پاکستان منظور کی گئی جس میں تاریخی نکات رکھے گئے۔
نئی مملکت کا آغاز
وطنِ عزیز پاکستان کا قیام 14 اگست 1947ء کو عمل میں لایا گیا جبکہ بانئ پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح اس کے محض 1 سال بعد یعنی 11 ستمبر 1948ء تک زندہ رہے۔
آخری وقت تک محترمہ فاطمہ جناح سائے کی طرح نوزائدہ وطن میں موجود مسلمانوں کیلئے مسلسل شدید محنت میں مصروف بھائی محمد علی جناح کے ساتھ رہیں اور ان کی خدمت میں مصروف رہیں۔
قائدِ اعظم کے بعد
سیاسی جدوجہد کے دوران محترمہ فاطمہ جناح کے اندر ایسی سوجھ بوجھ اور قابلیت پیدا ہو گئی تھی کہ قوم اس سے فائدہ اٹھا کر ترقی کی وہ منازل طے کرسکتی تھی جن کا خواب قائدِ اعظم اور علامہ اقبال نے کسی دور میں دیکھا تھا۔
آپ نے ایک فعال رہنما کے طور پر قیامِ پاکستان کے بعد بھی عملی سیاست میں حصہ لیا اور اپنے بھائی کی جدوجہد کو مسلسل آگے بڑھاتی رہیں۔ 25 دسمبر 1955ء میں آپ نے ایک اسکول قائم کیا۔
کراچی میں قائم ہونے والے اِس اسکول کا نام خاتونِ پاکستان رکھا گیا جس کیلئے حکومت نے 13 ایکڑ زمین الاٹ کی جو آگے چل کر یعنی 1962ء میں کالج بن گیا جہاں تعلیمی عمل آج تک جاری ہے۔
سیاسی جدوجہد سے وفات تک
محترمہ فاطمہ جناح نے عملی سیاست میں حصہ لیتے ہوئے وقت کے آمر حکمران ایوب خان کے مقابلے میں الیکشن لڑا اور سن 1965ء کے صدارتی انتخاب میں ایوب خان نے ان پر نکتہ چینی بھی کی۔
ایوب خان کی بے سروپا نکتہ چینی کا جواب دیتے ہوئے مادرِ ملت نے فرمایا کہ ایوب خان عسکری مسائل کا ماہر تو ضرور ہوسکتا ہے لیکن میں نے سیاسی سوجھ بوجھ محمد علی جناح سے براہِ راست حاصل کی، ایوب خان اس میں نابلد ہے۔
بعد ازاں 8 اور 9 جولائی کی درمیانی شب سن 1967ء میں فاطمہ جناح ایک شادی کی تقریب میں شرکت کے بعد گھر لوٹیں۔ آپ نے گھریلو ملازم سے کہا کہ میں کھانا نہیں کھاؤں گی لیکن کچھ پھل کھا لیے۔
قصرِ فاطمہ آپ کی رہائش گاہ کا نام ہے جس کی بالائی منزل پر زندگی کی آخری شب آپ آرام کرنے گئیں۔ ہر روز آپ کا معمول تھا کہ چابیاں نیچے برآمدے میں پھینک دیتیں اور ملازم تالے کھولا کرتے، لیکن 9 جولائی کو ایسا نہ ہوا۔
جب وقتِ مقررہ پر چابیاں نہ ملیں تو ملازم پریشان ہوا اور دھوبن بھاگتی ہوئی آپ کے کمرے میں جا پہنچی۔ کمرے میں محترمہ فاطمہ جناح کا جسم تو موجود تھا لیکن روح قفسِ عنصری سے پرواز کرچکی تھی۔
آپ کو لاکھوں افراد کے مجمعے میں پولوگراؤنڈ پہنچایا گیا۔ لوگ زاروقطار رو رہے تھے۔ قوم نے اپنی ماں (مادرِ ملت) کا آخری دیدار کیا اور 6 لاکھ سے زائد افراد نے آپ کی نمازِ جنازہ پڑھی۔
مزارِ قائد میں محترمہ فاطمہ جناح کو ان کی وصیت کے مطابق دفن کیا گیا۔ آپ کی قبر کی جگہ قائدِ اعظم سے 120 فٹ کے فاصلے پر موجود ہے۔ قوم فاطمہ جناح کی خدمات، قربانیوں اور ہمت و حوصلے پر ہمیشہ آپ کو زبردست الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کرتی رہے گی۔