گزشتہ وباؤں سمیت کورونا اور لاک ڈاؤن کے تناظر میں رواں برس حج کی صورتحال

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گزشتہ وباؤں سمیت کورونا اور لاک ڈاؤن کے تناظر میں رواں برس حج کی صورتحال
(فوٹو: آن لائن)

کورونا وائرس کوئی  پہلی وباء نہیں جس کا نوعِ انسانی کو سامنا ہے بلکہ انسان پر ایسی آفتیں پہلے بھی ٹوٹتی رہیں  لیکن آج تک حج جیسے مذہبی فریضے کے ساتھ جو دینِ اسلام کے 5 لازمی اراکین میں شامل ہے، ایسا سلوک نہیں کیا گیا جس کا رواں برس قومِ مسلم مشاہدہ کر رہی ہے۔

سمجھا یہ جاتا ہے کہ آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ دنیا کی کسی بھی وباء نے حج جیسے اہم اسلامی فریضے کو متاثر کیا ہو۔ خانۂ کعبہ پر دہشت گردی کے حملے بھی ہوئے اور سیلاب بھی آئے۔ حجاج کرام نے تیر تیر کر بھی کعبۃ اللہ کا طواف کیا اور تاریخِ انسانی میں ایسی ایسی مثالیں قائم کیں جو شاید ہی دنیا کے کسی اور مذہب میں دستیاب ہوسکیں۔

سوال یہ ہے کہ گزشتہ وباؤں کے دوران حج کے ساتھ کیا ہوا؟ موجودہ کورونا وائرس کے باعث حج کس حد تک متاثر ہوا؟ اور آئندہ کیا ہوگا؟ کیونکہ مسجدِ نبوی میں نبئ آخر الزمان ﷺ کی چوکھٹ پر حاضری، کعبۃ اللہ کا طواف اور حج و عمرے کی ادائیگی ہر مسلمان کا سب سے اہم خواب ہوتا ہے۔

حج کی اہمیت

خدائے بزرگ و برتر کے برگزیدہ فرشتے جبرئیل نے جب حضور ﷺ سے پوچھا کہ اسلام کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا یہ کہ تم کہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، تم 5 وقتہ نماز ادا کرو، زکوٰۃ دو، روزے رکھو اور اللہ کے گھر کا حج کرو۔

دوسری حدیث میں فرمایا گیا کہ اسلام کی بنیاد 5 باتوں پر ہے۔ گواہی دینا کہ اللہ کے سوا معبود کوئی نہیں، محمد اللہ کے رسول ﷺ ہیں، نماز کا قیام، زکوٰۃ کی ادائیگی، رمضان کے دوران روزے رکھنا اور اللہ کے گھر کا حج کرنا جبکہ ایک اور حدیث کے مطابق تیسرا افضل عمل حج کرنا ہے۔

نبی کریم ﷺ سے پوچھا گیا افضل عمل بتائیے۔ فرمایا اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان۔ پوچھا گیا، اس کے بعد تو فرمایا جہاد۔ پھر پوچھا گیا اس کے بعد؟ فرمایا ایسا حج جس کی ادائیگی کے دوران تمام تقاضے یعنی فرائض کو پورا کیا گیا ہو۔

سعودی عرب میں کورونا وائرس کی صورتحال

کورونا وائرس پاکستان اور سعودی عرب سمیت دنیا کے 190 سے زائد ممالک میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اب تک 1 لاکھ 61 ہزار سے زائد افراد وائرس سے متاثر جبکہ 1 ہزار 307 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں جبکہ وائرس کے کیسز میں اپریل کے وسط سے اب تک تیزی سے اضافہ جاری ہے۔

گزشتہ روز کے اعدادوشمار کے مطابق 24 گھنٹوں کے دوران سعودی عرب میں 3 ہزار 393نئے کورونا وائرس کیسز رجسٹر کیے گئے جبکہ 40 افراد لقمۂ اجل بنے جس سے پتہ چلتا ہے کہ سعودی حکومت کے کورونا وائرس کی روک تھام کیلئے سنجیدہ اقدامات غیر ضروری بھی نہیں ہیں۔

دہشت گردی اور سیاست کے باعث حج منسوخی 

سب سے پہلے سن 6 ہجری میں حضورِ اکرم ﷺ کی سرکردگی میں حج کا فریضہ ادا کیا گیا جو اس کے بعد مسلسل ہر سال ادا کیا جاتا رہا۔ دیکھا جائے تو حج زندگی میں صرف ایک بار صاحبِ استطاعت مسلمانوں پر فرض ہے لیکن مسلمان محبت، عقیدت  اور عشقِ الٰہی و رسول ﷺ کے تحت بار بار حج کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔

یہ بات سن کر شاید ہر مسلمان حیران ہو کہ حج کی ادائیگی رواں برس تو صرف محدود کیے جانے کی خبریں زیرِ گردش ہیں، تاہم تاریخ اِس بات کی گواہ ہے کہ حج کم و بیش 40 بار خانہ کعبہ کی بندش کے باعث مختلف ناگزیر شرعی وجوہات کے باعث ادا نہیں ہوسکا۔

وباؤں کے ساتھ ساتھ کعبۃ اللہ پر دہشت گردی، سیاسی تنازعات، سیلاب اور موسم کی خرابی سمیت دیگر وجوہات کے باعث حج کی ادائیگی منسوخ کرنا پڑی۔ سب سے پہلے 865ء میں اسماعیل بن یوسف نامی شخص جسے السفاک بھی کہا جاتا ہے ، نے عباسی سلطنت کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔

السفاک نے مکہ میں کوہِ عرفات پر حملہ کیا جس سے ہزاروں عازمینِ حج شہید ہوئے جسے مدِنظر رکھتے ہوئے سعودی حکومت نے حج کی ادائیگی منسوخ کی۔ سن 930ء میں مکہ پر شدید حملہ ہوا۔ قرامطہ نامی فرقے کا سرغنہ ابو طاہر الجنابی لوٹ مار اور قتل و غارت کا باعث بنا جو اتنی شدید تھی کہ کئی سال حج کی ادائیگی منسوخ رہی۔

بعد ازاں عباسیہ سلطنت اور فاطمید کے درمیان خلافت کے مسائل پر سیاسی جھگڑے چل نکلے جو سن 983ء کی بات ہے۔ سیاسی کشمکش کے باعث سن 983ء سے لے کر 991ء تک یعنی تقریباً 9 سال مسلمان حج کی سعادت حاصل کرنے سے محروم رہے۔

وباؤں کے باعث حج منسوخی

سن 357 ہجری میں الماشری کے نام سے ایک وباء پھوٹ پڑی جس کے باعث سعودی عرب، بالخصوص مکہ میں بے شمار لوگ جان کی بازی ہار گئے۔ حج کیلئے جو لوگ سعودی عرب آ رہے تھے، وہ راستے میں جاں بحق ہوئے اور مکہ پہنچنے والے اتنی دیر سے پہنچے کہ حج کی ادائیگی نہ ہوسکی۔

یہی نہیں، بلکہ 19ویں صدی عیسوی کے اوائل میں 1831ء میں بھارت سے ایک وباء پھیلی جو مکہ جا پہنچی جس کے باعث اس سال آنے والے 75 فیصد عازمینِ حج جاں بحق ہو گئے جو وباء کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے خدا کے گھر حاضری کیلئے مکہ پہنچے تھے۔

بعد ازاں سن 1837ء سے 1858ء تک 3 بار حج منسوخ کیا گیا جس کی وجہ وباء کا پھوٹ پڑنا تھا۔ 1846ء میں مکہ میں ہیضہ پھیل گیا جس نے 15 ہزار سے زائد جانیں لیں اور حج سن 1850ء تک تقریباً 4 سال تک 1 سے زائد بار منسوخ ہوا۔

رواں برس حج کی صورتحال

سعودی حکومت کے اعلان کے مطابق رواں برس حج محدود ہوگا۔جو لوگ ملک میں مقیم ہیں، صرف وہی حج کرسکیں گے۔ گزشتہ شب کیے گئے اعلان کے مطابق محدود تعداد میں سعودی عرب میں مقیم افراد کو حج کی سعادت حاصل کرنے کی اجازت دی جائے گی جو مختلف مسلم ممالک کے شہری ہیں۔

حج کیلئے پاکستان سمیت دنیا کے کسی بھی ملک سے کوئی پرواز سعودئ عرب نہیں جائے گی  جبکہ سعودی حکومت کا یہ فیصلہ حج کو صحت مند ماحول میں انجام دینے کیلئے کیا گیا ہے۔ کورونا وائرس کو روکنا سعودی حکومت کی اوّلین ترجیحات میں شامل ہوگیا ہے جس کی روک تھام کیلئے سماجی فاصلہ ضروری ہے۔

اسلام کیا کہتا ہے؟ 

حج حقوق اللہ میں سے ہے یعی یہ بندوں پر خدائے بزرگ و برتر کا حق ہے جسے اسلام کے پانچویں رکن کی حیثیت حاصل ہے۔ حج کی فرضیت کیلئے استطاعت کی شرط رکھی گئی ہے جسے عام طور پر سمجھا نہیں جاتا۔

لفظ استطاعت میں صرف مالی استطاعت شامل نہیں بلکہ جسمانی اور حالات کی شرائط کی استطاعت بھی شامل ہے جسے نظر انداز کرنا درست نہیں۔ مالی اعتبار سے استطاعت سے مراد یہ ہے کہ حج کیلئے خرچ آپ کے پاس ہو۔

قرض لے کر حج کرنا درست نہیں جبکہ راستے کا پرخطر نہ ہونا بھی استطاعت میں شامل ہے۔ راستے میں اگر کسی ڈاکو یا چور سے لٹ جانے کا خطرہ ہو تو حج کیلئے روانگی استطاعت کے بغیر سمجھی جائے گی۔

یہی حکم جسمانی صحت اور ملکی حالات کیلئے ثابت ہوتا ہے۔ جب تک خطرہ، وباء یا دہشت گردی کا خوف دور نہ ہو، حج کو ساقط کیا جاسکتا ہے جس کی شریعتِ مطہرہ نے ہر مسلمان کو اجازت دی ہے۔

بلا شبہ حج کی استطاعت رکھنے کے باوجود حج نہ کرنے پر سخت وعید ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ جو شخص باوجود استطاعت کے حج نہ کرے تو اللہ کو پروا نہیں کہ یہودی ہو کر جان سے جائے یا نصرانی ہو کر۔

تاہم کورونا وائرس  جیسی عالمی وباء کے تناظر میں جو ہر روز لاکھوں افراد کو متاثر کر رہی ہے اور ہزاروں کی تعداد میں جانیں لے رہی ہے، سعودی حکومت کو موردِ الزام ٹھہرانا درست نہیں۔

Related Posts