ایم کیو ایم رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کا اندوہناک قتل اور 10 سال بعد عدلیہ کا فیصلہ

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ایم کیو ایم رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کا اندوہناک قتل اور 10 سال بعد عدلیہ کا فیصلہ
ایم کیو ایم رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کا اندوہناک قتل اور 10 سال بعد عدلیہ کا فیصلہ

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم)کے چوٹی کے رہنماؤں میں شامل ڈاکٹر عمران فاروق  کو آج سے تقریباً 10 سال قبل 16 ستمبر کے روز بڑے ظالمانہ طریقے سے قتل کردیا گیا اور ان کے قاتلوں کو سزا دینے کا فیصلہ عدلیہ کی طرف سے آج سامنے آیا ہے۔ 

شہرِ اقتدار میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے قتل کیس میں نامزد ملزمان معظم علی، محسن علی اور خالد شمیم کو عمر قید کی سزا سنائی۔یہ فیصلہ گزشتہ ماہ کی 21 تاریخ کو محفوظ ہوا تھا۔معزز جج شاہ رخ ارجمند نے محسن علی، خالد شمیم اور معظم علی پر 10 لاکھ فی کس جرمانہ بھی عائد کیا جو عمران فاروق کی اہلیہ کو زرِ تلافی کے طور پر ادا ہوگا۔

ڈاکٹر عمران فاروق کون تھے؟ انہیں کب ، کہاں اور کیوں قتل کیا گیا؟ مقدمہ کب قائم ہوا اور کتنے عرصے تک چلا،  یہ سب سوالات اپنی جگہ اہم ہیں۔ ہم ایک ایک کرکے ان تمام سوالات کے ساتھ ساتھ دیگر اہم معلومات بھی یہاں بیان کررہے ہیں۔ تاکہ آپ یہ اندازہ لگا سکیں کہ وطنِ عزیز پاکستان کا نظامِ عدل کتنا کمزور ہے جہاں قتل کے ملزم کو سزا دینے کیلئے بھی سالہا سال انتظار کرنا پڑتا ہے۔

ڈاکٹر عمران فاروق کے بارے میں چند حقائق

ڈاکٹر عمران فاروق ایک پاکستانی نژاد برطانوی سیاستدان تھے جو متحدہ قومی موومنٹ کیلئے اے پی ایم ایس او (مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن) کے وقت سے کام کر رہے تھے۔ یہی نہیں بلکہ وہ اے پی ایم ایس او کے ایسے رہنما مانے جاتے ہیں جنہوں نے اس تنظیم کی بنیاد رکھی جو آگے چل کر ایم کیو ایم بنی۔

عمران فاروق متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے ہیں۔بعض قیاس آرائیاں یہ بھی ہیں کہ الطاف حسین کو ڈاکٹر عمران فاروق پر شک ہوا کہ وہ ان سے ایم کیو ایم کی قیادت چھیننے کیلئے متحرک ہیں۔ جس کے نتیجے میں الطاف حسین کے حکم پر ہی عمران فاروق کو قتل کیا گیا، اسی طرح بعض لوگ عمران فاروق کے قتل کو دیگر سیاسی جماعتوں سے بھی منسوب کرتے ہیں۔ تاہم یہ محض قیاس آرائیاں ہیں جن کا حقیقت سے تعلق آج تک ثابت نہیں کیا جاسکا۔

عمران فاروق کا دورِ حیات

ایم کیو ایم رہنما  عمران فاروق کراچی میں پیدا ہوئے جبکہ ان کے والد برصغیر کی تقسیم کے بعد موجودہ بھارت سے ہجرت کرکے پاکستان آگئے تھے جو بعد ازاں رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔

یہ خاندان خود کو کراچی کے دیگر اردو زبان بولنے والے خاندانوں کی طرح مہاجر کہتا اور سمجھتا تھا۔ڈاکٹر عمران فاروق کی مہاجر کی پہچان ان کی موت تک ان کے ساتھ ہی رہی۔

پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر عمران فاروق ایک فزیشن تھے جنہوں نے سندھ میڈیکل کالج کراچی سے سن 1985ء میں ایم بی بی ایس کی ڈگری لی۔ سن 2004ء میں رکنِ سندھ اسمبلی شمائلہ نذر سے ان کی شادی ہوئی جس سے ان کے 2 بچے بھی پیدا ہوئے۔

عمران فاروق کے خاندان کی سیاست میں جڑیں ایم کیو ایم کے دور سے بلکہ والد کے دور سے بھی پہلے بہت گہری ہیں۔ بعض روایات کے مطابق ڈاکٹر عمران فاروق کے دادا موجودہ بھارتی دارالحکومت دہلی کے گورنر بھی رہے، تاہم یہ قیامِ پاکستان سے پہلے کی بات ہے۔

دورِ سیاست اور سیاسی و سرکاری عہدے 

ڈاکٹر عمران فاروق نے اے پی ایم ایس او کے دور سے سیاست شروع کی جب اردو زبان بولنے والے مہاجر افراد کیلئے اے پی ایم ایس او قائم کی گئی۔ یہ آگے چل کر مہاجر قومی موومنٹ بنی اور یہی سیاسی جماعت بعد ازاں متحدہ قومی موومنٹ یا ایم کیو ایم کہلانے لگی۔ نام ضرور تبدیل ہوا، لیکن متحدہ کو آج تک صرف مہاجروں کی نمائندہ جماعت ہی سمجھا جاتا ہے جس کی نمائندگی زیادہ تر کراچی اور سندھ کے بعض شہری علاقوں تک محدود ہے۔

کراچی میں ڈاکٹر عمران فاروق متحدہ قومی موومنٹ کے بااثر اور اہم رہنما سمجھے جاتے تھے ۔ وہ متحدہ کے سیکریٹری جنرل اور  کنوینر سمیت دیگر اہم عہدوں پر فائز اور رابطہ کمیٹی سمیت دیگر اہم امور میں پیش پیش رہے۔

شہرِ قائد میں دورِ سیاست کے دوران ڈاکٹر عمران فاروق کو 2 بار قومی اسمبلی کی نشست پر متحدہ قومی موومنٹ کی نمائندگی اور بطور ایم این اے عوام کی خدمت کا اعزاز حاصل ہوا۔ ایم کیو ایم نے انہیں پارلیمانی لیڈر قرار دیا جس سے ان کے ایم کیو ایم میں رتبے اور اثر رسوخ کا بخوبی  اندازہ کیاجاسکتا ہے۔ 

سن 1992ء کا سیاسی آپریشن اور الزامات

سن 1992ء میں حکومتِ وقت نے ریاستی آپریشن کے تحت متحدہ کے رہنماؤں کی پکڑ دھکڑ شروع کردی۔ڈاکٹر عمران فاروق تو صفِ اوّل بلکہ چوٹی کے رہنماؤں میں شمار ہوتے تھے، اس لیے وہ بھی حکومتی آپریشن کی زد میں آ گئے۔ ان پر متعدد مقدمات قائم ہوئے اور قتل و غارت، غنڈہ گردی اور بھتہ خوری کے الزامات لگائے گئے لیکن ڈاکٹر عمران فاروق پر یہ الزامات ثابت نہیں کیے جاسکے۔

ریاستی آپریشن میں گرفتاری کے خوف کے پیشِ نظر ڈاکٹر عمران فاروق کو روپوشی اختیار کرنا پڑی۔ انہیں اشتہاری بھی قرار دیا گیا۔ سر کی قیمت بھی لگی اور اخبارات میں ان کے خلاف شہ سرخیاں بھی تواتر کے ساتھ لگتی رہیں۔ عمران فاروق منظرِ عام سے اچانک غائب ہو گئے اور پھر یہ پتہ چلا کہ وہ برطانیہ میں ہیں۔

برطانیہ میں جلا وطنی اور قتل 

حکومت جان کی دشمن بن جائے تو ڈاکٹر عمران فاروق جیسے سیاسی رہنماؤں کو بھی جلا وطنی برداشت کرنی پڑتی ہے۔ 10 ستمبر سن 1999ء میں ڈاکٹر عمران فاروق نے برطانوی حکومت سے درخواست کی کہ پاکستان میں میری جان کو خطرہ ہے۔ براہِ کرم مجھے سیاسی پناہ دی جائے۔ حکومتِ برطانیہ نے یہ درخواست قبول کر لی۔

سن 2010ءمیں 16 ستمبر کے روز ڈاکٹر عمران فاروق خون میں لت پت مردہ پائے گئے۔ کسی نے انہیں شمالی لندن میں ایجوائر میں واقع ان کی رہائش گاہ کے قریب انتہائی بہیمانہ طریقے سے قتل کردیا تھا۔ ان پر تیز دھار آلے سے وار کیے گئے اور اینٹیں بھی ماری گئیں۔

مقدمہ اور عمر قید کی سزا 

ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں مقدمات پاکستان اور برطانیہ دونوں جگہ قائم ہوئے۔ لندن پولیس، اسکاٹ لینڈ یارڈ اور پاکستان میں تحقیقاتی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ہر زاویے سے اِس کیس پر تفتیش کی۔

مقدمہ قائم ہوا تو استغاثہ نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ محسن علی سید اور کاشف کامران نے مل کر ڈاکٹر عمران فاروق کو قتل کیا۔ ایک نے انہیں عقب سے پکڑ لیا اور کوئی حرکت نہیں کرنے دی جبکہ دوسرے نے انہیں چھریوں اور اینٹوں سے لہو لہان کردیا جس کے نتیجے میں وہ جاں بحق ہو گئے۔

عمران فاروق قتل کیس میں ہزاروں لوگوں سے تفتیش کی گئی۔ اسکاٹ لینڈ یارڈ کے مطابق ساڑھے 4 ہزار افراد کے انٹرویوز لیے گئے ۔ساڑھے 7 ہزار سے زائد کاغذات اور مختلف دستاویزات کی فارنزک جانچ اور تفتیش کی گئی، تاہم پاکستان آ کر یہ مقدمہ تعطل کا شکار رہا۔

کم و بیش 5 سال تک عمران فاروق قتل کیس کی سماعت جاری رہی جبکہ اس سے قبل جے آئی ٹی بھی تشکیل دی گئی تھی۔ایف آئی آر  5 دسمبر 2015ء کو درج کی گئی۔ جس میں دہشت گردی اور قتل کی دفعات شامل ہیں۔ نامزد ملزمان میں بانئ ایم کیو ایم، اور دیگر سیاسی رہنماؤں سمیت 7 ملزمان کو نامزد کیا گیا۔

دورانِ سماعتِ مقدمہ 4 ملزمان اشتہاری قرار دے دئیے گئے اور 3 کے خلاف ٹرائل مکمل ہوا جبکہ آج عمران فاروق قتل کیس کا تاریخی دن ہے جب 3 ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ کیس کم و بیش 5 سال تک چلا۔ 

نظامِ انصاف کی کمزوریاں

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وطنِ عزیز پاکستان کا نظامِ عدل و انصاف بے حد کمزور ہے کیونکہ سالہا سال اگر مقدمات چلتے رہیں تو جرائم سے متاثر ہونے والے افراد کو ملنے والا انصاف بھی ناانصافی کے مترادف ہوتا ہے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر عمران فاروق جیسے اہم سیاسی رہنما اور ایم کیو ایم کی اعلیٰ قیادت کیلئے اگر نظامِ انصاف اتنی دیر اور سست روی سے کام کرتا ہے تو عوام الناس کا کیا حال ہوتا ہوگا؟ دُعا ہے کہ اللہ تعالی مملکتِ خداداد کی عدلیہ کو مضبوط کرے اور نظامِ انصاف کی کمزوریاں دور فرمائے۔ 

Related Posts